مزدوری کرنیوالے بچوں میں سے نصف جبری مشقت کا شکار ہیں، اقوام متحدہ

childran

childran

نیویارک : (جیو ڈیسک) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے کہاہے کہ کہ دنیا بھر میں 215 ملین بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں جن میں سے تقریبا نصف سے زیادہ جبری مشقت کا شکار ہیں اور انہیں ہر طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی ماہرین گلنار شاہینیاں اور نجات میلا مجید نے بتایا کہ جبری مشقت کے دوران بچوں سے جو کام لیا جاتا ہے اس کی سب سے گھنانی شکل مائننگ اور پتھروں کی کھدائی ہے۔ گلنار نے اس موقع پر کہا کہ بچے تین سال کی عمر سے کام شروع کردیتے ہیں مائن میں کام کرنے والے بچے نامناسب ماحول میں کام کرنے کی وجہ سے مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ان میں زیادہ تعداد لڑکوں کی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں وہ ایک جنس کے طور پر استعمال کرتے ہیں جہاں انہیں جسمانی ذہنی معاشی اور جنسی تشدد جیسے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے قیمتی دھاتوں مائن اور پتھروں کی کھدائی پر انحصار بڑھ گیا ہے جس سے کام کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد میں بھیانک ا ضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف ممالک کے دوروں کے دوران یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ظالم آجر بچوں کی چھوٹی جسامت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے کان کنی کا کام لیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان بچوں کی نشوونما رک جاتی ہے۔ ان بچوں میں لڑکے اور لڑکیوں سے یکساں کام لیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی نجات میلا مجید نے اس موقع پر بتایا کہ بعض ممالک میں بچوں کی خرید و فروخت اورانہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات خطرناک حد تک پہنچ چکے ، یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے اور انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی ہے جس میں ان کی آزادی جسمانی نشوونما اور ترقی پر سمجھوتہ کرلیا گیا ہے جبکہ اسی طرح بچوں کو بھی اپنے حقوق کا مکمل حق حاصل ہے۔ آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل جون سومیویا نے کہا ہے کہ 215 ملین بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں اور ان میں سے آدھے بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانچ ملین بچوں سے جبری مشقت اور انہیں کمرشل بنیادوں پر جنسی ہراساں کیا جاتا ہے۔