معصوم عوام اور چالباز لیڈر

Tahir Ul Qadri

Tahir Ul Qadri

قارئین ایک تیز طراز شخص کو بادشاہ نے سزا سنائی کہ اس جرم میں یا تو وہ سو پیاز کھائے گا یا پھر چو جو تے و ہ آدمی بھی انتہائی تیز نکلا اس نے فیصلہ کیا کہ جوتے کھانے سے بہتر ہے کہ پیاز کھا لئے جائیں اس کے سامنے اس کی خواہش پر سو پیاز رکھ دیئے گئے اس نے بمشکل پانچ پیاز کھائے ہونگے کہ اس نے اپنا فیصلہ تبسیل کرتے ہوئے سو جوتے کھانے کی خواہش کر دی بادشاہ نے کوتوال کی ڈیوٹی لگائی۔

اسے سو جوتے مارے جائیں دس جوتے کھانے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ یا اس تکلیف سے تو بہٹر ہے پیاز کھا لئے جائیں چنانچہ اسے جوتے چھوڑ کر پیاز اور پیاز چھوڑ کر جوتے اس طرح اس نے سو پیاز بھی کھا لئے اور سو جوتے بھی میں نے یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ چند روز قبل ہمارے معزز لیڈر نے لانگ مارچ کا نہ صف اعلان کیا بلکہ لانگ مارچ پر چل بھی نکلے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چالیس لاکھ افراد کو بیوقوف بنائیں گے یعنی اپنے ہمراہ چالیس لاکھ افراد لائیں گے پہلے تو لاہور شہر جسے آج کے حکمران ہر صورت تسخیر کرنا چاہتے ہیں قابل احترام ڈاکٹر صاحب نے خوب زور لگایا نو بجے شروع ہونے والا لانگ مارچ دو بجے لاہور سے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں روانہ ہوا۔

پنجاب حکومت نے انہیں اسلام آباد پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور انہیں بلآخر اسلام آباد پہنچا بھی دیا جناب آصف علی کی پروڈکشن میں کھیلا جانے والا یہ ڈرامہ اپنی مقبولیت کی حدوں کو چھونے لگا اوپر سے ملنے والی ڈکٹشن پر چند گھنٹوں کے بعد خطاب کر دیا جاتاپوری دنیا کا میڈیا اس لانگ مارچ کو کوریج دے رہا تھا ہمارے کچھ دوستوں نے تو شرطیں بھی لگا رکھی تھیں کہ اب طاہر القادری حکمرانوں کو نکال کر اسلام آباد سے جائے گا اور کچھ تجزیہ نگار پہلے ہی اس کو ٹوپی ڈرامے کا نام دے رہے تھے۔

ہمارے وہ پچاس ہزار عوام جنہیں بیوقوف بنانے میں طاہر القادری صاحب کامیاب ہوئے یعنی انہیں اسلام آباد لے آئے پچاس فیصد لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ اسلام آباد آئے کیوں ہیں کئی لوگ پہلی مرتبہ یہا آئے اور اسلام آباد کے نظارے دیکھنے کو بے تاب تھیمگر اس ڈرامے کو طویل کر دیا گیا کیونکہ مقصد یہ تھا کہ جب موصوف پنجاب سے گزریں گے ایک طوفان برپا کریں گے اور مندرہ سے پہلے ہی جو طوفان اٹھے گا پنجاب حکومت ختم گورنر راج کا نفاذ اور الیکشن میں تاخیر کا جو مقصد تھا اللہ نے اسے ناکام بنادیا اور جو کام مندرہ کے علاقوں میں ہونا تھا اسلام آباد پہنچ کر جب کیا گیا تو فوری طور پر ایکشن ہوا اور کام کو روک دیا گیا۔

Tahir Ul Qadri

Tahir Ul Qadri

موصوف گرم کینٹینر مین بیٹھ کر گرم گرم چاہے کی چسکی لیتے اور عوام کی بے بسی پر خوب ہنستے عوام کو کیا پتا کہ موصوف کیوں ہنستے ہیں عوام نے چار راتیں سردی میں گزار دیں جب ان سے یہاں آنے کا مقصد پوچھا ھیا تو انہوں نے انتہائی سادگی سے بتایا کہ انہیں یہ تو نہیں پتا کہ وہ یہاں کیوں لائے گئے ہیں وہ انقلاب کے خواہاں ہیں انہیں کوئی بھی حکمرانوں کے خلاف بلائے وہ آنے کو تیار ہیں عوام کا جوش بھی دیدنی تھا کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ کسی بھی لمحے پیپلز پارٹی کی حکومت اختتام پذیر ہونے والی ہے حکمراں عوام کو دیکھ کر ہنستے کہ کیسے بیوقوف لوگ ہیں پانچ سالوں سے ہمارے جوتے کھا رہے ہیں۔

طاہرالقادری کے پیاز کھانے بھی آگئے ہیں قارئین میں اس وقت اسلام آباد میں موجود تھا میرے میڈیا کے ساتھی کوریج کر رہے تھے جو ایک فیصد بھی مطمین نہیں تھے وہ صبھ سے ہی کہ رہے تھے کہ آج اس ڈرامے کو ختم کر دیا جائے گا کہ بارش شروع ہوگئی اسلام آباد کا موسم انتہائی سرد ہو چکا تھا کہ ہمارے لیڈر نے عوام سے خطاب شروع کیا اور حمرانوں کو جھوٹا اور کریہٹ کہا اور ان پر الزامات کی بارش اس بارش سے زیادہ کی جو عوام پر برس رہی تھی خطاب کو ختم ہوئے ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ معلوم ہوا حکمران مذاکرات کے لئے آرہے ہیں وہاں پر ایک بات اور بھی چل رہی تھی کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکمرانوں سے رابطہ کیا اور کہا کہ جلدی کرو عوام مر رہے ہیں اور تم بلاجواز اس ڈرامے کو طول دے کر بور کر رہے ہو کچھ ہی دیر بعد پولیس نے ایک لائن بنائی اور حکومت کے نمائندے کینٹینر میں آپہنچے اور ڈاکٹر صاحب تو جیسے پھولے نہ سمائے اور جپھیاں لگا کر انہیں ملے یہ منظر دیکھ کر اکثریت لوگ جب وہاں سے نکلنے لگے تو انہیں کس کس کے واسطے دے کر روکنے کی کوشش کی گئی۔

کہ مذاکرات ہونے والے ہیں وہ مذاکرات جو ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہے مجھ سمیت کئی لوگ بیمار ہو گئے انہیں نزلہ زککام ہو گیا مگر ساڑھے چار گھنٹے حکمران اور پاڑت آف حکمران گرم کینٹینر میں عوام کی بے بسی کا مذاخ اڑاتے ہوئے نکلے اور بتایا کہ ڈھرنا ختم مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں قارئین ڈھرنے اس سے پہلے بھی ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو جب لانگ مارچ پر نکلیں تو وہ ایک ٹرک پر کھڑی تھیں اور عوام ان کے ساتھ چل رہے تھے بینظیر بھٹو امر ہو گئی اور عوام آج بھی اس سے پیار کرتے ہیں اسی کے نام پر آصف علی ذرداری آج صدر ہے یہ ثبوت کم نہیں جب نواز شریف لانگ مارچ پر نکلے تو عوام کے ساتھ چل رہے تھے۔

انہیں کسی کا خوف نہیں تھا انہوں نے بلٹ پروف ٹرک نہیں بنوایا تھا وہ لاہور سے نکلے تو حکمرانوں کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اگر وہ بھی عوام سے خوفزدہ ہو کر بلٹ پروف گاڑی میں ہوتے اور عوام مرنے کے لئے ان کے ساتھ ہوتے تو آج میاں نواز شریف اتنے مقبول لیڈر نہ ہوتے دھرنا جماعت اسلامی نے بھی دیا قاضی حسین احمد عوام کے ساتھ کھڑے تھے انہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے نماز ادا کی دھرنا دیا اور خطاب کر کے دھرنا ختم کر دیا تاریخ کے اوراق پر آج بھی ان کا نام موجود ہے اس دھرنا نے خوب شہرت کمائی تھی اگر ڈاکٹر طاہرالقادری اسلام آباد پہنچ کر اپنا خطاب کر کے اس دھرنا کو ختم کر دیتے راستے میں عوام کے ساتھ چائے پیتے گپ شپ لگاتے مگر انہیں تو اپنے ساتھیوں سے اتنا خوف تھا کہ انہوں نے بلٹ پروف ٹرک میں بیٹھنا پسند کیا اور عوام بے یارومددگار۔

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
03348732994