ملک نازک دور سے گزر رہا ہے،کوئی حل بھی تو نکالے…؟

pakistan

pakistan

نپولین کا کہنا ہے کہ ” حالات سازگار ہوتے نہیں سازگار بنائے جاتے ہیں ”ممکن ہے کہ آپ بھی ہماری طرح نپولین کے اِس نقطے سے متفق ہوں اورہماری اِس بات سے بھی اتفاق کریں کہ حالات آپ کے فیصلے کے لئے رُکے نہیں رہیں گے اِس کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ صحیح فیصلے بروقت کرنے کے عادی بن جائیں تو پھر حالات کیسے بھی ہوں…؟ اُن سے آپ نبردآزماہونے کے لئے خودبخود تیار بھی رہیں گے اور اِسی کے ساتھ ہی ایسے ہی موقع کے لئے ڈزرائیلی کا یہ قول بھی ہمیں یاد آگیا اُس کا کہنا ہے کہ”حالات اِنسان کو نہیں بلکہ اِنسان حالات کو بناتا ہے”۔

مگر یہاں ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بحیثیت ایک پاکستانی کے اپنے زمینی حقائق کے پیشِ نظر اپنے ملک کے اُلجھتے سلجھتے حالات کے تناظر میں ہم گزشتہ کئی سالوں سے متواتر ایسے جملے سُن رہے ہیں کہ ہماراملک اپنی تاریخ کے اِنتہائی نازک حالات سے گزررہاہے،اِس وقت ہمارے ملک کو اندونی اور بیرونی طورپرجن اقسام کے چیلنجز کا سامنہ ہے اِس سے پہلے ایساکبھی نہیں ہواہے ،کچھ لوگوں کا اپنے ملکی حالات سے متعلق یہ خیال ہے کہ ہمیں افسوس ناک حد تک پہنچ جانے والے حالات میں کن لوگوں نے دھکیلاہے اِس کا پتہ لگایاجائے کہ ہمیں اِن حالات میں کن لوگوں نے ملوث کیاہے..؟اور اِس قسم کے بہت سے ایسے فکرانگیزجملے ہمیںروزانہ ٹی وی چینلزاور پبلک مقامات پر ہونے والی گفتگواور تحریروں میں سُننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں کہ جس کے بعد ہمیں بعض اوقات یہ محسوس ہوتاہے کہ جیسے ہمارے حکمران، سیاستدان اور اہلِ دانش اِس قسم کے فکرانگیز جملے اپنی زبان سے اداکرکے اور تحریر میں درج کرکے اپنے کاندھوں پر پڑی اُن ذمہ دارایوں کوجنہیںاداکرنے کے لئے عوام نے اِن پر بھروسہ کیا تھا اور اِنہیں اِس کا ذمہ دار ٹھیرایا تھایہ لوگ اپنی اُسی ذمہ داری کو اُتار کرکے چھٹکارہ پارہے ہیںتووہیں اپنی قوم کو مستقبل قریب میں آنے والے کسی انتہائی ہولناک حالات سے بھی ڈرا دھمکاکر کنی کٹاکر نکل جانے میں ہی اپنی عافیت ڈھونڈہ رہے ہیںمگر ایسے میں جب ہم یہ سوچ رہے ہیں تو آپ ہی یہ بتائیں کے کیا ہم یہ کوئی غلط سوچ رہے ہیں …؟کہ ہمارے لئے یہ انتہائی بدنصیبی کی بات ہے کہ آج تک ہمارے کسی بھی حکمران، سیاستدان ، مذہبی و سماجی رہنما، اہلِ دانش اور بیوروکریٹس نے کبھی اپنی دانش سے ملک کو درپیش اِن حالات اور واقعات سے نبردآزماہونے کا حل پیش نہیں کیا ہے جن کے بقول ہماراملک آج جن حالات اور واقعا ت سے دوچار ہے۔

اَب ایسے میں ہم زیادہ دور نہیں جائیں اپنے صرف دودہائیوں پر مشتمل ماضی پر ہی اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں اِس با ت کا شدت سے احساس ہوگاکہ اِس عرصے میںہماراملک جن حالات سے گزررہاہے توکیا واقعی یہ ہمارے اپنے پیداکردہ مسائل کی وجہ سے اِن حالات سے دوچار نہیںہواہے …؟تو ایک لمحے کے بعد ہمارادماغ اِس نقطے پر ضرورپہنچ جائے گااور ہم چیخ پڑیں گے کہ جی ہاں …!آج جو ہمارے حالات ہیں اِن کی وجہ ہمارے حکمران ، سیاستدان، اپوزیشن، مذہبی رہنما ، بیورکریٹس اور ہمارے ملک میں پلنے والا اغیارنواز (امریکا، برطانیہ اور اِن جیسے دوسرے ممالک کا )وہ ٹولہ ہے جس نے اپنے مفادات کے حصول کے خاطر ملک میں ایسے حالات پیداکردیئے ہیں کہ اَب اندرونی اور بیرونی طورپر ہماری خودمختاری اور سالمیت کو شدیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

بیشک آج دہشت گردی کے خلاف جاری یہ جنگ جس کا علمبردارسُپرپاور امریکاہے ہماری اپنی نہیں تھی مگر اَب چونکہ اِس میں ہم اِس قدر ملوث ہوگئے ہیں کہ اَب اِس جنگ کو ہم نے خودزبردستی کی اپنی جنگ بناڈالی ہے تو اَب اِ س جنگ کے جو بھی نتائج ہوں اِسے ہمیں ہی برداشت کرنے ہوں گے البتہ اِس موقع پر ہمیں اتنایقین ضرورکرلیناہوگاکہ اِس میںہمارے لئے خیر کی اُمید بہت کم اور نقصان کا احتمال ہماری سوچوںسے بھی کہیں زیادہ ہے۔

آج اِن حالات میں جب ہم امریکی جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار اداکرتے ہوئے اپنے اربوں روپے بھسم اور قیمتی انسانی جانوں اور املاک کا بھی نقصان کرچکے ہیں اور اِسی طرح اَب ہم ذہنی و جسمانی طور پراِس پر بھی آمادہ ہیںکہجب تک یہ جنگ جاری رہے گی ہم اپناسب کچھ تباہ و برباکرتے رہیں گے تو پھر ایسے میںاغیار کی جنگ کو اپنی جنگ میں بدلنے والے ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور ہمارے ملک میں آستین کے سانپ نماامریکی نواز ٹولے کو نکیل ڈالنے کے لئے ہمارے درمیان سے ملک اور قوم سے حقیقی معنوں میں کوئی مخلص قیادت اَب تک کیوں نہیں اُبھرکرسامنے آسکی ہے…؟جس پر قوم کا اعتماد بحال ہو اور قوم مفاد پرست ٹولے سے نجات حاصل کرنے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوتی مگر اَب تک ایسانہیں ہوسکاہے… اَب ہم اِن حالات میں کیایہ یقین کرلیںکہ آج 19کروڑ پاکستانیوں میں سے کوئی بھی ایسانہیں ہے جو حقیقی معنوں میں اپنے ملک سے حب الوطنی کے جذبہ کے ساتھ قوم کے بگڑے آج حالات کو سُدھارنے کے لئے قومی پرچم اپنے ہاتھ میں لئے نکل کھڑاہواور قوم کو اپنوں اور اغیار کی اُس گرفت سے آزاد کرانے کے لئے قوم میںیہ شعور بیدار کرے کہ ہمارے حکمران ، سیاستدان ، مذہبی و سماجی رہنمااور اِن سب کو ہانکنے والے بیوروکریٹس نے ملک و قوم کو امریکی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں جھونک کر ملک اور قوم کو اِسی کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے اور آج ہم جن حالات میں سانس لے رہے ہیں۔

amrica

amrica

یہ حالات بھی ہمارے اِن ہی مصالحت پسند اور اپنے اقتدار سے چمٹے رہنے والے حکمرانوں، اقتدار کی نوراکشی میں مگن سیاستدانوں، انگلی کے اشاروں پر سب کو نچانے والے بیوروکریٹس اور اُن نام نہاد اسلامی جماعتوں کے اِنتہا پسند مذہبی رہنماؤں اور امریکا نواز ٹولے کی ہی کارستانیاں ہیں کہ ہمارے یہاں دیدہ و دانستہ ایسے حالات پیدا کرد یئے گئے ہیں کہ آج اِن حالات پر بہت سی نومولودسیاسی شخصیات اپنے اِس قسم کے”ہماراملک اپنی تاریخ کے اِنتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے،اِس وقت ہمارے ملک کو اندونی اور بیرونی طورپرجن اقسام کے چیلنجز کا سامنہ ہے اِس سے پہلے ایساکبھی نہیں ہواہے ،کچھ لوگوں کا اپنے ملکی حالات سے متعلق یہ خیال بھی ہے کہ ہمیں افسوس ناک حد تک پہنچ جانے والے حالات میں کن لوگوں نے دھکیلاہے اِس کا پتہ لگایا جائے کہ ہمیں اِن حالات میں کن لوگوں نے ملوث کیا ہے..؟اور اِس قسم کے بہت سے ایسے فکرانگیزجملے ہمیںروزانہ ٹی وی چینلزاور پبلک مقامات پر ہونے والی گفتگواور تحریروں میں استعمال کرکے اپنا اپنا سیاسی قد اُونچا کر رہی ہیں حالانکہ اِنہیں چاہئے تو یہ ہے کہ جب یہ لوگ اپنی اتنی فکرانگیزگفتگواور تحریریں کررہے ہوتے ہیں تو اِنہیں اِس کے لئے حل بھی پیش کرنا چاہئے۔

ایسے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج ملک کو جن مشکل چیلنجز کا سامنہ ہے اِس کے حقیقی ذمہ دار بھی یہی لوگ ہیں جو ملک کے حالات اور واقعات کے حوالے سے اپنی گفتگو اور تحریروں میں فکرانگیزجملوں کا استعمال تو خوب ٹھوک بجا کر ضرورکرتے ہیںمگرسب اِس کا حل پیش کئے بغیر اپنا اپنا وقت گزار کراور قرطاس کالے کر کے چلے جاتے ہیں جیساکہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ حالات آپ کے فیصلے کے لئے رُکے نہیں رہیں گے اِس کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ صحیح فیصلے بروقت کرنے کے عادی بن جائیں تو پھر حالات کیسے بھی ہوں…؟ اُن سے آپ نبردآزماہونے کے لئے خودبخود تیار بھی رہیں گے مگرجب ہم اپنے اردگرد کے ماحول اور حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہیں توہمیں یہ نہیں لگتا ہے کہ کوئی اپنے اِن موجودہ حالات کو سازگار بنانے کے لئے بارش کا پہلاقطرہ ثابت ہوگا کیوں کہ ہمیں اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، مذہبی و سماجی رہنماؤں، بیوروکریٹس اور اغیار نواز ٹولے کی مفاد پرستانہ روش اوراِن سب کی خصلت سے یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اِن سب کو بارش کا پہلاقطرہ نہ بننے کے لئے ہی تو امریکا اپنے چیلوں پر ڈالروں کی بارش کر رہا ہے۔

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم