مودی کا فرقہ وارانہ آہم آہنگی کے لیے برت

narendra modi

narendra modi

ہندوستان کی ریاست گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نیفرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ایک روز کا برت رکھا ہے۔ اس موقع پر چھ سماجی کارکنان کو حراست میں لیا گیا ہے۔سرکردہ سماجی کارکن شبنم ہاشمی کی قیادت میں بعض سماجی کارکنان گودھرا کے مضافات میں مودی کے برت کی مخالفت میں متوازی جلسہ کررہے تھے۔شبنم ہاشمی کا کہنا تھا انہوں نے ہمیں روکا اور گرفتار کرلیا۔ ہم صرف اپنا جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم انہیں ڈر کس بات کا ہے۔ ہم کہ کیا رہے ہیں انہیں؟گودھرا ٹرین حادثے اور اس کے بعد ہونے والے گجرات فسادات کی دسویں برسی سے ایک ماہ قبل نریندر مودی گجرات کے مختلف شہروں اور اضلاع میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے سدبھانا مشن یعنی ہم آہنگی کی تحریک شروع کیے ہوئے ہیں اور بیس جنوری کا ان کا برت اسی تحریک کا حصہ ہے۔

نریندر مودی کا کہنا ہے کہ ان کے برت کا مقصد امن اور باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔گجرات میں کانگریس کے لیڈر شکتی سنگھ گوہل نے نریندر مودی پر الزام لگایا ہے کہ مودی عوام کا پیسہ ضائع کررہے ہیں۔تقریبا دو ماہ پہلے نریندر مودی نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے سد بھانا مشن یعنی ہم آہنگی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ریاست میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے نریندر مودی کے اس برت کو ایک سیاسی ڈرامہ قرار دیا ہے۔گجرات فسادات کے بعد نریندر مودی ایک متنازع رہنما رہے ہیں انہیں ایک مسلم مخالف ہندو رہنما کے طور پر دیکھا گیا ہے۔نریندر مودی پر گجرات کے فسادات کیلیے سخت تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں کبھی کوئی بیان نہیں دیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب انہوں نیفرقہ وارانہ ہم آہنگی، امن اور اتحاد جیسے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔بی جے پی اگرچہ مودی کو وزارتِ عظمی کے امیدوار کے طور پر ابھی تک پیش نہیں کر رہی ہے لیکن پارٹی کے اندر واجپائی اور ایڈوانی کے بعد کوئی واضح قیادت نہ ابھرنے اور ایک بہترین اور باصلاحیت منتظم کے طور پر قومی سیاست میں مودی کا ظہور انہیں خود بخود قومی سیاست کی طرف دھکیل رہا ہے۔لیکن دلی کی طرف دیکھنے سے قبل انہیں اگلے برس گجرات کے ریاستی انتخابات جیتنے ہوں گے۔قومی سیاست میں مودی کی آمد کے امکان کو امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ سے مزید تقویت ملی ہے جس میں مودی کی انتظامی صلاحیت کی زبردست تعریف کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس بات کا غالب امکان ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب میں وہ بی جے پی کے وزارتِ عظمی کے امیدوار کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔