مولانا کے اندر جن

Rohail Akbar

Rohail Akbar

پاکستان میں جہاں علماء کرام ایک دوسرے کو سمجھنا شروع ہو گئے ہیں وہیں پر اچھی خبر یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں حکومت اور ڈاکٹروں کے درمیان جو تنائو چل رہا تھا وہ ختم ہو گیا ہے اور دونوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں ان دونوں فریقین کی کامیابی اپنی جگہ مگر جو اس دوران ڈاکٹروں اور حکومتی ظلم کا شکار ہو کر اس جہان فانی سے چلے گئے انکا حساب کون دیگا اس پر میں اپنا نقطہ نظرواضح کرتا ہوں مگر سب سے پہلے ایک اہم خبر جس میں جماعت الدعو کے سربراہ حافظ محمد سعید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور دیگر مولوی ارکان پارلیمنٹ میں امریکی جِن بولتا ہے ان کے اندر سے یہ جن ایک دن ضرور نکلے گا انھوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے کم ہوئے ہیں یہ جلد بند بھی ہو جائیں گے امریکا افغانستان سے واپسی کا محفوظ راستہ ڈھونڈ رہا ہے افغانستان میں قیام امن کی باتیں اسی سلسلے کی کڑی ہیں ،ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے یکطرفہ تجارت پاکستان کیلئے نقصان دہ ہے ، بلوچستان اور کراچی کے حالات کا ذمہ دار بھارت ہے جبکہ پاکستان کا ایٹم بم ملکی سلامتی کی علامت بن چکا ہے۔

میں جناب حافظ سعید صاحب سے انتہائی عقیدت سے کہتا ہوں کہ جناب پاکستان میں کچھ مولوی حضرات کے اندر جن نہیں بولتا بلکہ وہ پورے کے پورے جن ہیں جن میں مولانا فضل الرحمن سرفہرست ہیں انہیں ہم الہ دین کا جن نہیں کہیں گے بلکہ یہ کبھی مشرف کے جن رہے کبھی زرداری کے جن رہے جنہوں نے اپنے مفاد کی خاطر ہر اس حکمران کا جن بننا قبول کرلیا جن کی وجہ سے انہیں کچھ مفاد ملنے کی امید ہوتی تھی اور اسی وجہ شہرت سے انہیں کبھی مولانا ڈیزل بھی کہا جاتا رہا کیا ہی اچھا ہوتا کہ مولانا فضل الرحمن بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے اور مفادات کی سیاست کو ٹھوکر مار دیتے پھر دیکھتے کہ عوام انکا کیسے عقیدت سے نام لیتی مگر ان کے کارناموں کی وجہ شہرت سے جناب حافظ سعیدصاحب نے بھی انکشاف کردیا کہ انکے اندر جن ہے حالانکہ مولانا صاحب کسی بھی جن سے کم نہیں ہیں جو اپنے اصولی موقف کی خاطر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان حکومت اور ڈاکٹروں کے درمیان کا میا ب مذکرات کے بعد حکومت نے ڈاکٹروں کے خلا ف تمام مقدما ت ختم سیکو رٹی اور ڈاکٹروں کی معطلی کے با ر ے میں مطا لبا ت تسلیم کرلیے جس کے بعدپی ایم اے نے ہڑتال ختم کر نے کا اعلا ن کر دیا ڈاکٹروں نے ڈاکٹرسعید کے اغواء خلاف ہڑتال کا اعلا ن کیا تھا اور تقر یبا 55دن یہ ہڑتال جا ری رہی جس سے ڈاکٹروں اورمحکمہ صحت کے درمیان دوریاں پیداہوئی اورعوام مشکلا ت سے دو چا ر رہے حکو مت نے ڈاکٹروں کے مسا ئل اور مطا لبا ت حل کر نے کیلئے سیکرٹری صحت اور کمشنر کو ئٹہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے ڈاکٹروں کے ساتھ مذاکرات کیے اور حکومت نے ڈاکٹروں کے تمام مطالبات مان لیے جبکہ پی ایم اے کے صد ر سلطان ترین نے کہا ہے کہ ہم ہڑتال پر نہیں بلکہ حکومت نے ڈاکٹروں پر پا بند ی لگا دی تھی جسکے بعد ہم ہسپتال نہیں جا سکے اسی طرح کی ہڑتال ینگ ڈاکٹروں کی طرف سے پنجاب میں بھی ہو چکی ہے ایسی ہڑتالوں سے اکثریتی پارٹی والے فائدہ اٹھاہی لیتے ہیں مگر انکے اپنے مفادت کے بعد جو حال غریب عوام کا ہوتا ہے اس کا کون ذمہ دار ہے امیر اور سرکاری افسران تو ان سرکاری ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے اس لیے انہیں نہ تو ڈاکٹروں سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی عوام سے کوئی کسی کی لاپرواہی اور غفلت سے مرتا ہے تو بے شک مر جائے مگر کیا مجال ہے کہ ہم ٹس سے مس بھی ہوجائیں مریض جو سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے آتے ہیں انکے ساتھ ڈاکٹروں کا رویہ ایسے ہوتا ہے جیسے یہ انکو چیک کرکے بہت بڑا احسان کررہے ہیں۔

Doctors Strike

Doctors Strike

اکثر پروفیسر لیول کے ڈاکٹر تو اپنے آپ کو الگ ہی کوئی مخلوق سمجھتے ہیں جن کے دفتر کے باہر بیٹھا ہوا ملازم نہ تو کسی کو اندر جانے دیتا ہے اور نہ ہی کسی سے ملنے اور اگر کبھی خوش قسمتی سے پروفیسر صاحب اپنی وارڈ کا رائونڈ کریں تو مریضوں کے سوا کسی سے نہیں ملتے بلکہ مریضوں کے ساتھ موجود انکے لواحقین کو وارڈ سے باہر نکال دیا جاتا ہے کیا یہ سب ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک میں بھی ایسا ہی رویہ رکھتے ہیں جیسا سرکاری ہسپتالوں میں؟۔

تحریر : روہیل اکبر 03466444144-