نوجوانوں اٹھوکمرباندھ لو

Imtiaz ali shakir

Imtiaz ali shakir

شرم آتی ہے مجھے خود کو ایک پاکستانی اور سچا مسلمان کہتے ہوئے کیسے مسلمان ہے ہم؟کیسے پاکستانی ہے ہم؟ہم تو ان الفاظ کا مطلب تک بھول چکے ہیں ہمیں نہیں پتہ ہم کون ہے کیسے ہمیں پیداکیا گیا اور کیا آخرت ہوگی ہماری ہمیں سب بھول چکا ہے ہمیں بس لوٹ مار کا پتہ ہے ہمیں بس غلط کام کرنے آتے ہے خود غر قوم بنتے جارہے ہیں ہغم پاکستان کی تعمیر ترقی فلاح و بہبود کی کارکردگی کے حوالے سے میں اپنے ہم وطنو اور خود سے شرمندہ ہو کیونکہ ہماری کارکردگی کا ریکارڈ صفر پر ہی دم توڑ جاتا ہے میں ایک پاکستانی ہوں مگر مجھے پاکستان کی تلاش ہے وہ پاکستان جسے ہماری قائدین نے اتنی قربانیوں سے اسلام اور حق کے نام پر حاصل کیا ہم خود ہی اسے تباہ و برباد کرنے پر کیوں تل گئے ہیں ہم تو اس کے محافظ ہے دشمن نہیں تو ہم پھر کیوں اس کے لیے مصبتیں جمع کیے جا رہے ہے۔

پاکستان کا خواب جو ہمارے قائدین نے دیکھا تھا اور جس کی اساس اسلامی اصول تھے جس پر عمل پیرا ہوکر اسے ایک فلاحی ریاست بننا تھا اس سلسلے میں میں نے پاکستان کے ہر ادارے کی جانچ پڑتال کی حکمرانوں کو دیکھا پرکھا اور عوام کی عادات کا جائزہ لیا۔مجھے کہی بھی پاکستان فلاحی ریاست بنتا نظر نہیں آیا۔بلکہ ہر طرف خونخوار درندے اپنے جال میں بیوقوف عوام کو دبوچتے نظر آئے آج ہم نوجوان طبقہ ہے اگر آج بھی ہم نے کچھ نہ کیا تو کرے گا کون پاکستان کو ہم نے ٹھوس وجوہات کی بناء پر ہندوستان کو تقسیم کروا کے انگریزوں سے حاصل کیا تھا اس وقت مسلمانوں میں اتحاد ایمان اور نظم و ضبط کی عملداری تھی انصاف تھا قانون کی حکمرانی اور سب سے ایک جیسا سلوک تھا تو ہمیں خدا کی طرف سے اور ہماری قربانیوں کی بدولت اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے انصاف کرنے کے لیے انسانیت کی فلاح کے لیے پاکستان حاصل ہوا تھا۔

مجھے چونسٹھ سال پرانے اس پاکستان کی تلاش ہے جسے ہمارے قائدین نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے قیام سے لے کر آج تک اتنا وقت گزر جانے کے باوجود اسے مسائل ہی درپیش ہے اور یہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہیں ہے جو کہ اس کی ترقی کو روکے اور جھکھڑے بیٹھے ہے اگر پاکستان کے ان مسائل پر قابو پالیا جائے تو یہ دوبارہ 1947ء والی طاقت بن کر ابھر ے گا اور اپنی منزل تک پہنچ جائے مگر ایسا کرنے کے لیے ہمارے درمیان اتحاد پختہ ایمان اور ہمارے بانی پاکستان علامہ حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت قائداعظم محمد علی جناح جیسے قائدین کا ہونا بہت ضروری ہے۔

Mohammad Ali Jinnah

Mohammad Ali Jinnah

اکیس مارچ1932ء میں حضرت علامہ اقبال آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کے بارے میں کہتے تھے میں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں خواتین اور لڑکوں کے ثقافتی ادارے تشکیل دینے کی تجویز پیش کرتا ہوں جن کا سیاست سے تعلق نہ ہو۔ان کا بڑا مقصد نوجوانوں کی خوابیدہ روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے ان کو آگاہ کیا جائے کہ اسلام نے انسانی ثقافتی اور مذہبی تاریخ میں کیا کارنامہ ایجاد دیے اور مستقبل میں مزید کیا امکانات ہوسکتے ہیں آج بھی ہمیں حضرت علامہ اقبال کی اس تجویز پر سچے دل سے عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم نوجوانوں کا قبلہ درست ہوسکیں۔اور آج کے نوجوان جو کہ مختلف آفات کا شکار ہے مختلف مصائب سے دوچار وہے جنہیں آگے آنے نہیں دیا جارہا جن کے لیے ہر طرف سے دروازے بند کیے جارہے اور وہ مایوسی کا شکار ہورہے ہے وہ مایوسی سے باہر نکل سکیں اپنے سامنے آنے والی مصائب مشکلات اور درپیش مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے اور انہیں ختم کیا جائے تاکہ ہم بھی دنیا کے باقی ملکوں کی طرف ترقی کی راہ میں گامزن ہوسکیں مگر یہ تب ہوں گا جب ہم ایک مکمل انسان بنیں گے اور اپنے آپ کو ان اوصاف سے آراستہ کرلیں گے جو خود ہماری نشوونما اور ترقی کے لیے ضروری ہے اور جو عظیم قوم کی تعمیر تشکیل کے لیے معاون بن سکتی ہے۔

نوجوان تو کچھ بھی کرسکتے ہے اور مسلمان نوجوان سب کچھ کرسکتے ہے اگر ہم اپنا ایمان پختہ کرلے اور اپنے وطن عزیز کو بچانے اور اس کے محافظ بننے لیے نکلے تو ہم اپنے عزائم تک پہنچ سکتے ہے حضرت علامہ اقبال ایک جگہ پر نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے۔

اُس قوم کو شمیشر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے نوجوانوں کی خودی صورت فولاد
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارہ
شباب جس کا ہے داغ ضرب ہے کاری

allama iqbal

allama iqbal

ہمارے قائد حضرت علامہ اقبال کا مثالی نوجوان تعلیم یافتہ خوددار،یقین مستحکم،اورعمل پیہم کی خوبیوں کا حامل نوجوان ہے۔ہمیں میدان میں اترنا ہوگا۔اور ایک دفعہ پھرمیدان لگانا ہوگا۔پہلے ہم نے بیرونی دشمنوں کا سامنا کیا تھا اب ہمیں اندرونی دشمنوں سے سامنا کرنا پڑے گا۔ہمیں اس کا سامنا کرنا اور جیتنا بھی ہے۔ہمارے پیارے وطن کو سب سے ذیادہ جس سے نقصان پہنچا وہ کرپشن ہے۔یہ وہ بری بیماری ہے جس کو ہر حکمران گلے لگانا چاہتا ہے۔اور لگاتا ہے۔ہردورحکومت میں حکمران کرپشن کوپوجتے اورگلے لگاتے رہے ہیں اورآج بھی یہ سلسلہ جاری زوروشورسے جاری ہے۔ہماری حکومت کا ناکارہ ہونے اور بیروزگاری اور ہر چیزکی قیمت میں اضافہ کا سبب کرپشن ہے۔اور یہ بہت بڑا المیہ ہے۔جس پر کوئی بھی حکمران جسے عوام نے اسے گلے لگانے کا موقع دیا ۔وہ اپنے نشے میں مگن ہے۔اور با لکل بھی ندامت محسوس نہیں کرتے۔مگران حکمرانوں کی ان حرکات کی وجہ سے عوامی مسائل دب کر رہ گئے ہیں۔اور مسائل اتنے سنگین ہوئے جارہے ہیں۔کہ اگر ان کا حل اب نہ نکالا گیا تویہ آگے جاکر ہمارے لئے نا سور بن جائیں گے۔اور پھر ایسے ہی بحرانوں کی شکل میں ہمارے سامنے آئینگے۔ہمیں اپنے وطن عزیزکوان آفتوں ،مصیبتوں سے پاک کرنا ہے۔یہ ہمارا ملک ہے۔اور ہم ہی اس کے باسبان ہیں۔

برصغیرپاک وہند پر کئی صدیاں حکومت کرنے والے مسلمان جب عیش وعشرت میں پڑگئے تھے۔تودشمنوں نے اس کمزوری کواپنی طاقت بنا کر ان کوغلام اور خود ملک پر قابض ہوگئے۔وہی حال اب ہورہا ہے۔ہمارا طبقہ عیش وعشرت میں مصروف ہے ہرکوئی دوسروں کوپیچھے چھوڑنے اور خود کوآگے لانے کے چکر میں ہے۔اور عوام کو بے وقوف بنا کر اسے اور اس کے حکومتی خزانے کو لوٹنے میں مگن ہیں۔نوجوانوں اب ہمیں اپنی مستی اور کاہلی کو پیچھے چھوڑکر خود میدان میں آنا ہوگا۔اور خود اپنے وطن عزیزکی حفاظت ،تعمیروترقی کی زمہ داری اپنے ہاتھوں میں لینی ہوگی۔اگر اب بھی ہمیں ہوش نہ آئی تووہ دن دور نہیں کہ یہ حکمران ہمیں اور ہمارے وطن عزیزکوبھی بیچ ڈالیں گے۔نوجوانوں غلط وہ نہیں ہم خود ہیں۔کیونکہ اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں۔کہ جیسی قوم ہوگی اس پر ویسے ہی حکمران مسلط کئے جائینگے۔ان لوگوں نے نوجوان طبقہ کوعجیب سی الجھن میں الجھایا ہوا ہے۔آج کے نوجوان مختلف ہنرعقل ،فہم وفراست کے مالک ہیں۔سب کچھ جاننے کے باوجودکیوں کچھ نہیں کررہے ،ہمارے وطن عزیزکی بقا کے لئے ہمارے سچے ولولے جوش وجذبے کی ضرورت ہے۔ہمیں آگے آنا ہوگا۔آج کے ترقی یافتہ دورمیں بھی ہمارے حکمران جوکہ سابقہ حکومت کی مسلسل اور طویل آمریت کے بعد جمہوریت کا نعرہ لے کر برسراقتدار آئے تھے۔انہوں نے بھی کرپشن کی انتہا کررکھی ہے لوٹ رہے ہیں اور ہمارے وطن عزیزکواور اس کے علاوہ ان کی شاہ خرچیاں جوایوان صدراور وزیراعظم ہائوس سے لے کر غیرملکی دوروں سے وفاقی کابینہ اور بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات کی مدمیں جاری ہیں۔

ان پر قابو پانے کے متعلق کبھی سوچا نہیں گیا۔اور بدقسمتی سے آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے۔کہ حکومت کے قرضہ جات ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ہزار ارب سے تجاوزکرچکے ہیں۔جس سے ملک میں افراط زر مزید بڑھے گا۔اور افراط زر بڑھنے سے غربت مہناگئی اور بیروزگاری کی شرح میں مزید خطرناک کن اضافہ ہوگا۔

ایسے حالات میں عوام بجا طورپرموجودہ حکمرانوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔مگرکیا فائدہ ؟ ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔؟ کیونکہ یہ حکمران ٹولہ ملا ہوا ہے۔آپس میں آزادی پاکستان سے لے کر آج تک ہمیں اپنے بانی پاکستان جیسے قائد نہیں ملے۔تب سے لے کر آج تک یہ چند لوگ ہمارے اوپر حکمرانی کرتے نظر آرہے ہیں۔اب ہمیں ان رنگ برنگے چہروں والے لوگوں کو پہچان لینا چاہئیے۔اور یہ نوجوان طبقہ اپنے وطن عزیزاور ہماری بھولی بھالی عوام کی خاطر ان کے حق کی خاطر وطن عزیز کی تعمیروترقی کی خاطر ڈٹ جائیں اور اپنے آپ میں ہمت اور جذبہ پیدا کرسکیں کہ ان عزائم کو پورا کرسکیں۔منوا سکیں تویہ چورلٹیرے خود ہی بھاگ جائینگے۔مگراس کے لئے ہمیں پہلے اپنے اندر غوروفکر تعلیمی میدان میں سبقت اور ملکی فلاح وبہبود میں خود کوآگے لانا ہوگا۔میری اولین خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ملک میں ہمیں ایک ایسی قیادت میسر ہو جائے جوملک اور قوم سے مخلص ہواور وہ قیادت پاکستان کو حضرت قائداعظم محمدعلی جناح رحمتہ اللہ علیہ اور شاعر مشرق حضرت علامہ محمداقبال کے خوابوں جیسا عظیم اور حسین بنا دے۔

کچھ روز پہلے مجھے اپنے ایک پرانے دوست سے ملنے کا اتفاق ہوا جس کا نام غلام مرتضیٰ ہے اور انہوں نے بتایا کہ وہ ایک فلاحی ادارے کی برانچ کے مینجر ہیں۔وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے آفس لے گئے اور اپنے سٹاف جن میں ان کی برانچ انچارج مس روبینہ،مسٹرخاور،مسٹرشہباز سرفہرست تھے ان سے ملوایا میں نے ان سے کچھ جاننے کی کوشش کی۔کہ یہ سب معاشرہ کی بقا ء اور لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے کوشاں ہیں۔یہ لوگ اپنی ذاتی زندگی سے بھی وقت نکال کر لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔مجھے بتایا گیا کہ ان سب کا سیلری پیکج آٹھ سے بارہ ہزار درمیان ہے۔مگریہ سب بہت خوش ہیں۔اور جوش وجذبے سے اپنے وطن کی فلاح وبقاء کا کام سرانجام دے کر بہت خوش تھے،جوکہ ان کے چہروں سے عیاں تھا،اگر ایک آدمی اتنے پیسوں میں خوش رہ سکتا ہے توپھریہ شاہ خرچیاں کیوں کی جاتی ہیں۔کیوں وطن عزیز کے قرضوں میں بے بپاہ اضافہ کیا جاتا ہے۔ان قرضہ جات میں کیوں کمی نہیں کی جاتی۔

pakistan

pakistan

ہم کس قدر بے حس ہوچکے ہیں۔اس کا اندازہ خود کوبھی نہیں ہوتا اور ہم حالت بے حسی میں اپنے زوال کے قریب ترہوتے جارہے ہیں۔ ذیادہ دور نہیں صرف 1988ء سے اب تک ہی اپنی بے حسی کودیکھ لیں کہ ہم کبھی کسی کے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں توکبھی کسی کے مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔جولوگ اس ملک اور اس کی عوام کے نام پر شعبدہ بازی کرتے ہیں۔وہ ہمارے وطن عزیز میں اپنا علاج کروانا اپنے بچوں کوتعلیم دلوانا اور کاروبارتک کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔یہ لوگ پاکستانی پانی بھی پینا پسند نہیں کرتے۔اور عوام بے وقوفوں کی طرح ان کی خوشامد میں مبتلا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخرکب تک یہ سب چلتا رہے گا۔اور ہم سب اجنبیوں کی طرح اپنے وطن عزیز کولٹتا ہوا دیکھیں گے۔آخرکب تک ہم اپنے وطن عزیز کو تنہا غداروں کے ہاتھوں میں چھوڑے رکھیں گے۔سنبھل جائو ابھی بھی وقت ہے۔

میں امید وابستہ کئے بیٹھا ہوں۔نوجوانوں سے کہ وہ اپنے وطن عزیز کے لئے کوشاں ہونگے۔بچائیں گے وہ اس کومصائب سے اور ہمارے پیارے وطن کوترقی کی طرف گامزن کرینگے۔وقت آچکا ہے۔غفلت کی نیند سے جاگ اٹھنے کا نوجوانوں خود میں شعوراجاگر کرو کچھ کرنے کا۔اللہ تعالی ٰ ہمیں عقل سلیم عطاء کرے اور ہمارا حامی و ناصر ہو”آمین۔تحریر : سجاد علی شاکر