واہ رے حکمران، 2012کا کیسا تحفہ دیا ہے

Gas

Gas

ہم بھی کبھی ماضی میںدوسروں کی طرح  پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومتوں کے ایک بڑے حامی رہاکرتے تھے وہ اِس لئے کہ جب بھی اِن جمہوری پارٹیوں نے عوام پر حکمرانی کی ہے تو اِنہوں نے عوامی مسائل حل کئے ہیں اور اِسی بناپر عوام کا اِن پر اعتمادبھی بحال رہامگرجب ہم نے موجودہ جمہوری حکومت کی گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران پیش کی گئی اِس کی کارکردگی کاجائزہ لیااور اِس کا موزانہ ایک جابر وفاسق آمر کی حکومت سے کیا توہمیں مایوسیوں کے پہاڑ اپنے اُوپرگرتے ہوئے محسوس ہوئے کہیں سے کوئی سوراخ ایسانظر نہیں آیاکہ ہم کہہ دیتے کہ چلوجہاں ہماری اِس موجودہ جمہوری  حکومت نے بہت سے اقدامات عوامی توقعات کے برعکس کئے ہیں تو یہ ایک منصوبہ اور اقدام توایساضرور ہے جو عوام کی ریلیف کے حق میں گیاہے مگر ہمیں ہر طرف سے مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا اورمایوسیوں کے گہرے سمندر میں غوطہ زن رہنے کے بعد جب ہم ذراسنبھلے تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ جب ہمارے موجودہ حکمرانوں سے حکومت سنبھالے نہیں جارہی ہے تو خداکے واسطے ملک اور قوم کو طر ح طرح کی تجربات کی دہکتی بھٹی میں جھونکنے سے تو بہترہے کہ خاموشی سے اقتدار چھوڑ کر ایک طرف کی راہ لیں اور کسی اور کو ملک کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ لینے کا موقع دیں یہ کیاکہ ملک اورقوم کا مسقتبل سنبھالنے اور اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کے چکر میں  عوام کو اِن کے حقوق سے محروم رکھ کر اِن کی آنکھوں میں مرچیں جھونکیں جارہی ہیں ہمارے موجودہ حکمرانوں کی اِس سے بڑی اور کیا ناکامی ہوگی کہ اِنہوں نے ملک میں بجلی کے بحران پر قابوپانے کے بجائے گیس کابحران بھی پیدا کر دیا ہے یاکرا دیا ہے جس سے ایک طرف ملکی معیشت کا ستیانس ہوکررہ گیاہے تو وہیں کارخانے بند ہونے سے ملک میں ترقی بھی رک گئی ہے تو اِن کے بجلی اور گیس نہ ہونے کی معمولی وجہ سے بے روزگاری میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے ایسے میں ہمارے حکمرانوں کو سنجیدگی سے کوئی حل نکالنا چاہئے تھا۔ اُلٹا اِنہوں نے اپنے تئیں ایسی حکمت عملی اختیارکر لی ہے کہ عوام بلبلا کرچیخ اٹھے ہیں کہ ” واہ !رے حکمران ، وا ہ !رے حکمران ….ہم نے تمہیں کیو ں دی آزادی کہ آج ہم خود بھی حیران ہیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ ہماری موجودہ انوکھی حکومت جو اپنے قیام سے آج تک ملک سے بجلی کا بحران جیسا گھمبیر ہوتامسئلہ تو حل نہ کرسکی مگراَب اِس کے حصے میں اِس کی اپنی ناقص اور فرسودہ حکمت عملی اور اِس کی اپنی نااہلی کی وجہ سے ملک میں گیس کا بحران بھی ایک طاقتورترین بھونچال کے روپ میں سامنے آچکاہے جس سے دیرپاانداز سے نمٹنے کے بجائے حکومت نے اِس کا حل یہ نکالاہے کہ حکمرانوں کے صلہ مشورے کے بعد سوئی نادرن نے غیر معینہ مدت کے لئے صنعتوں کو گیس کی فراہمی بندکردی ہے اور وفاقی حکومت نے اپنے نہتے اور مہنگائی کے ہاتھوںپریشان حال عوام پر ارادی طور پرگیس بم برسادیاہے اوگرا کی طرف سے گزشتہ جمعے ملک میں مہنگائی کا طوفان لئے ایک ایساظالم نوٹیفکیشن جاری کردیاگیاہے کہ جس کے مطابق یکم جنوری 2012سے گیس کی قیمتوں میں 13.98سے 207.10فیصدتک یقینی طورپر اضافہ ہو گیاہے جس کے بعد 100کیوبَک میٹرماہانہ تک گیس استعمال کرنے والے گھریلوصارفین کے قیمتوں میں13.98فیصدکے ساتھ 107.87روپے فی ایم ایم پی ٹی یوسے بڑھاکر122.95روپے فی ایم ایم پی ٹی یو،101سے 300کیوبَک میٹر ماہانہ تک گھریلو صارفین کے لئے قیمت215.74روپے ایم ایم پی ٹی یو سے بڑھاکر245.89روپے ایم ایم پی ٹی یو،301سے 500کیوبِک میٹرماہانہ تک گھریلوصارفین کے لئے قیمت 908.38روپے ایم ایم پی ٹی یو سے بڑھاکر1035.34روپے ایم ایم پی ٹی یو اور اِسی طرح 500کیوبِک میٹر ماہانہ سے زائد استعمال کرنے والے گھریلوصارفین کے لئے قیمت1142.74روپے ایم ایم پی ٹی یو سے بڑھاکر1302.46روپے ایم ایم پی ٹی یوکردی گئی ہے تاہم اطلاع یہ ہے کہ اِس میں گیس ڈویلپمنٹ سرچارج شامل نہیں ہے اور اِسی طرح کمرشل گیس صارفین کے لئے بھی گیس کی قیمتوں میں اندھادھند اضافہ کردیاگیاہے اور سی این جی کی قیمتوں میں بھی 8.30روپے فیکلو تک اضفہ کردیاگیاہے جبکہ پہلے نوٹیفکیشن کے تحت قیمتوں میں11روپے14پیسے فی کلو تک اضافہ کیاگیا لیکن خبریہ ہے کہ سی این جی سیکٹراور وزارتِ پیٹرولیم کے دباؤ پر یہ نوٹیفیکیشن کچھ دیر بعد یوں ہی واپس لے لیاگیا جس کی مکمل تفصیلات اخبارات اور دیگر نشری ذرائع سے حاصل کی جاسکتی ہیں یہ ہماری اِس جمہوری حکومت کا وہ عظیم کارنامہ کہاجاسکتاہے جس کا نعرہ ہی روٹی ، کپڑا اور مکان ہے اور جس کا مقصد ہی ملک غریب عوام کی خدمت کرنا ہے۔
مگر اَب یہ اپنے اِن اقدامات کے بعد یقینی طور پر اپنے نعرے اور منشور سے منحرف ہوگئی ہے اور اِس  کے بعد قوم چیخ اٹھے گی کہ نہ گیس ہے اور نہ بجلی مگر اضافی بل کی وصولی حکومت ہم سے کیوں لے رہی ہے جبکہ اِس منصوبے کی توسعی کرتے ہوئے ہمارے وزیر پیٹرولیم جو صدرِمملکت عز ت مآب جناب آصف علی زرداری کے انتہائی قریب ترین دوست بھی ہیں اور ایسے دوست جن کی دوستی صدرسے کافی پرانی بتائی جاتی ہے اور جو اپنے پیشے کے اعتبار سے آرتھوپیڈک ڈاکٹر بھی ہیں یعنی ڈاکٹرعاصم حُسین نے کہاہے کہ 1ارب کیوبک فٹ گیس کی قلت ہے اور آج ہم گیس کے سنگین بحران کی جانب بڑی تیزی سے بڑھ ررہے ہیں جنوری کا مہینہ سخت ثابت ہوگا گیس کی ایمرجنسی نافذرہے گی اُنہوں نے سی این جی ایسوسی ایشن کو سختی سے متنبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ سی این جی ایسوسی ایشن والے عوام سے جھوٹ بولناچھوڑدے یہ ایک کلو پر 28روپے کا خالص منافع کماتے ہیں ہم پبلک ٹرانسپورٹ میں سی این جی کے استعمال پر پابندی لگائیں گے جیساکہ ہم نے پہلے ہی ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ میں نصب غیر معیاری سلنڈروں کی ملک آمد پر پابندی لگادی ہے جس کے مسقبل قریب میں اچھے نتائج سامنے آنے کی اُمیدہے اور اُنہوں نے اپناسینہ ٹھونک کر یہ بھی بڑی فلک شگاف آواز میں کہاکہ میں ایسی پالیسی بناؤں گاکہ آئندہ گیس اور بجلی کا مسئلہ نہیں ہو گا۔
اِس پر ہماراخیال یہ ہے کہ اِنہوں نے جتناکچھ کہاہے اَب دیکھنایہ ہے کہ اِس پر عمل کتنااور کب ہوتاہے…؟؟اور اِس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرصاحب نے حکومتی سطح پر جتنے بھی اقدامات کئے ہیں یا قائمہ کمیٹی کے اِس مشورے پر عمل کرتے ہوئے گیس کی قیمتیں پیڑول کے برابرکرنے جیساکوئی منصوبہ بناہی لیاہے تو کیااِس سے ملک میں گیس کی کمی پوری ہوسکے گی یا صرف گیس کی قیمت پیٹرول جتنی کرنے سے ملک میں گیس کا استعمال کم ہوپائے گا پہلے اِس کا تفصیلی جواب عوام اور اُن لوگوں دیں جنہیں پہلے پیٹرول سے سی این جی کی جانب راغب کرنے کے خاطر حکومت نے اربوں ، کھربوں کی اشتہاری فہم چلائی تھی اور اوپن مارکیٹ کے طور پر سی این جی سیکٹر میں سرمایہ کاروں کو دلچپس مراعات اور اِس سیکٹر سے زائد منافع کمانے کا لالچ دے کر اِنہیں سرمایہ کاری کاموقع فراہم کیاتھا اور اَب حکومت خود کہہ رہی  ہے کہ سی این جی ایسوسی ایشن عوام سے جھوٹ بولناچھوڑ دے یہ ایک کلوپر 28روپے کا خالص منافع کماتے ہیں اَب کیوں حکومت کو نظرآرہاہے کہ سی این جی اسٹیشنز والے جھوٹ بولتے ہیں اور زائد منافع کماکر عوام کو ورغلاتے ہیں اور اَب کیاجواز ہے کہ سوئی ناردرن والے صنعتوں کو گیس کی فراہمی بندکررہے ہیں اور ساتھ ہی وزیرپیٹرولیم یہ عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ سی این جی اسٹیشنز ایک ماہ کے لئے بند بھی کئے جاسکتے ہیںاور اِن کا یہ کہناکہاں کا انصاف ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں ہر ہفتے4راتیں سی این جی بندرکھنے کی تجویز دی جارہی ہے اگر اِس پر فوری طور پر عمل کرلیاگیاتو ملک سے گیس بحران پر قابوپایاجاسکے گا ورنہ مسائل یوں ہی رہیں گے۔  ہاں البتہ ! حکومت نے یکم جنوری سے گیس کی قیمتوں میں آنکھ بندکرکے اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں 64سال بعد گیس چوری پر سزاکادینے کا قانون بھی نافذکردیاہے جس کے مطابق ایسے گھریلوصارفین جو گیس چوری میں ملوث پائے گئے اُنہیں چھ ماہ کی سزااور صنعتی صارفین جن پر گیس چوری کے ثبوت ملیں گے اُنہیں دس سال کی قید کی سزادی جائے گی اِن دونوں حکومتی اقدامات کے حوالے سے گیس کی قیمتوں میں اضافے والا حکومتی فیصلہ عوام پر اِس منہ توڑ اور سینہ زور مہنگائی میں غریبوں کے کاندھوں پر اضافی بوجھ کے مترادف ہے حکومت کو گیس کی قیمتوں میں کئے جانے والا اپنا یہ فیصلہ فی الفور واپس لینے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں گیس کی بلاتعطل سپلائی کا عمل جاری رکھنے کے اقدامات کرنے ہوں گے ہاں البتہ! گیس چوری میں ملوث افراد کے لئے جو قانون بنایاگیاہے اور جو سزائیںتجویز کی گئی ہیں اِسے عوام سطح پر حوصلہ افزاقرار دیاجارہاہے۔اور اِسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ حکمرانوں کی اپنی کرُسی اور مفادات کے لئے آئے روزکی سیاسی کِل کِل کی وجہ سے پل پل کی بدلتی پینترے بازیوں سے آج کون ایساپاکستانی ہے جو واقف نہیں ہے اورجس کے منہ سے ایک آہ…! کے ساتھ اِن کے لئے ….دعائیںنہ نکلتی ہوں مگر ہمارے حکمران ہیں کہ اِنہیں اپنی ضداور اَنا کے آگے عوامی تکالیف کا کوئی احساس نہیں ہے جنہوں نے عوام کو ایک طرف رکھ کر اپنی سیاست چمکانے اور عوام کو دن میں طرح طرح کے سبز باغات دکھانے اور بغیر کسی خرچ کے خبروںاور اخباری بیانات کے ذریعے خیالی پلاؤ کھلانے کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔  تو اُدھر ہی ہمارے محب اقتداراور محب کُرسی اِن ہی حکمرانوں نے اپنا یہ منشور بھی بنارکھاہے کہملک میں غریب عوام زندہ رہیں یا نہ رہیںبس اِن کا کام چلتارہے ایسے میں ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ ہمارے یہی حکمران جنہوں نے اپنے ساڑھے اٹھارہ کروڑ غریب عوام کے لئے روٹی ،کپڑااور مکان کا دلفریب و دلکش نعرہ لے کر مسندِ اقتدار پر جب سے اپنا قدم رنجافرمایاہے توتب ہی سے ہمارے یہی موجودہ جمہوریت اور مصالحت پسندحکمرانوں نے یہ تہیہ بھی ضرورکررکھاہے کہ اِنہیں ملک میں مہنگائی کلچرل کو ہر حال میں پروان چڑھاناہے اِس کے بغیراِن کا دال دلیہ نہیں چل سکتاہے اورشاید یہی وجہ ہے کہ اِنہوںنے ملک میںمہنگائی کوبے لگام کرکے اپنے اُس مشن کی تکمیل کرلی ہے جس کے خاطرہمارے موجودہ حکمران 2008کے عام انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آئے تھے عوام کواپنے ارمانوں پر اُس وقت ہی اُوس پڑتی محسوس ہوئی جب اِسے اندازہ ہوا کہ موجودہ حکمران اِن کے مسائل سے چھٹکارے کے لئے کچھ نہیں کرسکیں گیںکیوں کہ اِن کے اپنے جھمیلے کچھ کم ہیں کہ یہ عوام کے مسائل کے حل اور روٹی ، کپڑااور مکان کی جانب توجہ دیتے۔اِنہیں تو عوام کو بے وقوف بناکر بس اقتدار پر قبضہ کر نا تھاتو وہ اِنہوں نے متحرمہ شہیدرانی بے نظیربھٹو کے سانحہ کو کیش کرواکر حاصل کرلیا مگر یہ اپنے اقتدار کے ساڑھے تین سالوں کے دوران(حد تو یہ ہے کہ اِن سطور کرکے رقم کرنے تک )عوام کے مسائل نہ تو حل کرسکے اور نہ ہی عوام کو کسی بھی معاملے میں کوئی ریلیف ہی دے پائے ہیں اُلٹااِنہوں نے اپنی نااہلی اور ناقص و فرسودہ اقدامات و منصوبہ بندیوں سے ایسے کارنامے انجام دے ڈالے ہیں کہ عوام الناس کے نزدیک حکومت کا گراف زمین بوس ہوکررہ گیاہے اور اِس پر بھی خوش فہم ہمارے حکمرانوں کایہ دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنے عوام کے لئے اتناکچھ اچھااور بہترکردیاہے کہ عوام میں ہم جب چاہیں جاکر اپنے دوبارہ اقتدار کے لئے اِن سے ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔اور عوام ہماری موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے پہلے سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں ہمیں ووٹ دے کر ہمیں دوبارہ اقتدار سونپ دیں گے اور ہم عوام کے قیمتی ووٹوں سے ایک مرتبہ پھر اقتدار حاصل کرلیں گے۔ جبکہ یہ بات ایک اٹل حقیقت کا روپ اپناچکی ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے عوام کو جتنامایوس کیا ہے اِتناتو ملک کی تاریخ میں آنے والے کسی بھی جابروفاسق آمرحکمران نے بھی عوام کو مہنگائی میں نہیںجکڑااور نہ ہی اِس نے عوام کو اِن کے بنیادی حقوق اور کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی اشیائے ضروریات جن میں آٹا، چینی ، چاول، دال، دودھ، گھی ،گیس، پیٹرول، بجلی اور پانی سے بھی دنوں، ہفتوںاور مہینوں محروم نہیں رکھاجتناکہ ہمارے اِن موجودہ حکمرانوں نے جوخود کو جمہوری حکمران کہتے نہیں تھکتے ہیں اِنہوں نے اپنے قول وفعل سے اپنے عوام کو تنگ اور پریشان کررکھاہے اور اَب یہ حقیقت کسی سے بھی چھپائے نہیں چھپتی سکتی ہے کہ آج روٹی،کپڑااورمکان کا نعر ہ لگوانی والی ہماری موجودہ جمہوریت و مصالحت پسند حکومت نے اپنے مہنگائی ، بیروزگاری اور کرپشن جیسے ظالمانہ اقدامات کی روک تھام کے لئے کچھ نہ کرکے قوم کو زندہ درگورکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
تحریر :  محمد اعظم عظیم اعظمazamazimazam@gmail.com