پانی سے حاصل کی گئی ہائیڈروجن کو پیٹرول ڈیزل یا CNGکی جگہ استعمال کرنے کا پروجیکٹ

Hydrogen Atom

Hydrogen Atom

اکثر ممالک میں کئی عشرے پہلے سے اس پروجیکٹ پہ ریسرچ ہو رہی ہے۔ اگر کسی کوئی کامیابی ملی بھی ہے تو اسے عام نہیں ہونے دیا گیا۔ پانی میں 2حصہ ہائیڈروجن اور 1حصہ آکسیجن ہوتی ہے ۔ پیٹرول ، ڈیزل یا CNG میں زیادہ ترمقدار ہائیڈروجن کی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے پانی سے حاصل کی گئی ہائیڈورجن پر بھی پیٹرول ، ڈیزل یا CNG پر چلنے والی گاڑیاں چل سکتی ہیں۔ پانی سے ہائیڈروجن گیس حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ الیکٹرولائزز کا ہے۔ابھی تک اس طریقہ میں توانائی کا INPUTزیادہ اور OUTPUTکم ہے۔ اس طریقہ میں پانی کو نیگیٹو اور پازیٹو الیکٹروڈز کے ذریعے DCکرنٹ دیاجاتا ہے جس سے مالیکیولز ٹوٹنے لگتے ہیں۔ نیگیٹو کے الیکٹروڈز کے پاس سے ہائیڈروجن گیس اور پازیٹو کے الیکٹروڈز کے پاس سے آکسیجن گیس خارج ہوتی ہے۔DC کرنٹ جتنا زیادہ ، الیکٹروڈز کا فاصلہ جتناکم ، الیکٹروڈز کی تعداد جتنی زیادہ اور Voltsکی رینج جتنی زیادہ ہو گی پانی میں الیکٹرولائزز کا ری ایکشن بھی اتنا ہی شدید ہوگا اور گیس خارج ہونے کی سپیڈ بھی اسی تناسب سے بڑھتی جائے گی۔اگر اس ری ایکشن سے بننے والے بلبلے کو آگ دکھائیں تو یہ معمولی بلبلہ پٹاخے کی سی تیز آواز سے پھٹے گا ۔

اس پوائنٹ پر ہائیڈروجن گیس عام گیس کی نسبت تقریباً 3 سے 5گنا طاقت ور ہوتی ہے۔ اگر یہ گیس اس حالت میں انجن کو سپلائی کی جائے تو آکسیجن اور ہائیڈورجن ساتھ ہونے کی وجہ سٹارٹ انجن سے آگ انتہائی تیزی سے ری ایکٹر تک پہنچ جاتی ہے جس سے ری ایکٹر دھماکے سے پھٹ جاتا ہے۔ اس طرح سے بلاسٹ کو روکنے کے لیے میں نے اس ہائیڈروآکسی گیس کو فریج کی 10فٹ کیکیپلری(انتہائی باریک پائپ) ، فوم کے فلٹر اور ائیر کلینر کے گتے کے فلٹر میں سے الگ الگ تجربات میں پاس کرکے استعمال میں لانیکے کاشش کی لیکن ری ایکٹر کا بلاسٹ نہیں رک سکا۔ ہائیڈرو آکسی گیس کے صرف پانی میں سے گرزنے کے بعد یہ مسلہ حل ہوا ہے ۔اس طریقہ میں پانی وال اور فلٹرکا کام کرتا ہے۔اس طرح انجن سے آگ کا ری ایکٹر تک پہنچنا تو رک جاتا ہے اور کسی حد تک گیس سے نمی بھی کم ہو جاتی ہے لیکن پانی سے گزرنے کے بعد ہائیڈروجن کافی کمزور ہو جاتی ہے ۔جس کا اندازہ اس واٹر فلٹر کے بعد حاصل ہونے والی ہائیڈورجن کو آگ لگا کر کیا جا سکتا ہے۔

اس سسٹم میں الیکٹروڈ گریڈ316 سٹین لیس اسٹیل کے استعمال ہوتے ہیں۔ میری ریسرچ کے مطابق عام لوہا ،پیتل،تانبا یا ایلومینیم اس ری ایکٹر کے لیے بالکل موزوں نہیں ہیں۔ اسٹیل کے علاوہ یہ دھاتیں پانی کو تیزی سے گندار کرتی ہیں اور الگ الگ وقت میں خود حل ہو جاتی ہیں۔ جبکہ اگرسٹین لیس اسٹیل کے ری ایکٹر میں بھی عام پانی ڈال دیا جائے تو اسٹیل کی پلیٹیں بھی الیکٹرولائزز کے عمل سے گارے کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ اس لیے سارے پروسس میں ڈسٹلڈ واٹر ہی استعمال کرنا چاہیے۔ میں نے 24وولٹ 20AMP کاری ایکٹر تیار کر کے موٹر سائیکل پہ ٹسٹ کیا ہے ۔20%سے30% تک پیٹرول کی بچت ہو سکتی ہے۔ ابھی 2پرابلم درپیش ہیں۔ ایک تو ری ایکٹرکا پانی شدید گرم ہو جا تا ہے۔ اور دوسرا اس ری ایکٹر کا ایمپئرز میں لوڈ کافی زیادہ ہے۔ جب تک ایمئیرز میں لوڈ کم نہ ہو اور پانی بھی ری ایکشن سے بہت زیادہ گرم نہ ہو اس پروجیکٹ کو کامیاب نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس ری ایکشن سے پانی کے شدید گرم ہونے کا مطلب ہے کہ INPUT توانائی کا زیادہ تر حصہ ضائع ہو رہا ہے۔ مختلف قسم کے ری ایکٹرز مثلاً

50 Plates 110 Volt DC
100 Plates 220 Volt DC
200 Plates 500 Volt DC

اور ان تمام ری ایکٹرز پر ریلے ز کے ذریعے DC کیپسٹرز کے ہائی DC وولٹج کے ڈسچاج کے تجربات ابھی باقی ہیں۔ ایمپئرز کا لوڈ کم سے کم کر کے زیادہ سے زیادہ گیس حاصل کرنے کے لیے کوشش جاری ہے۔ کم وقت اور فناشل پرابلم کی وجہ سے میں تیزی اس کام کو پورا نہیں کر پا رہا۔

میں 1998سے مختلف قسم کے تجربات میں مشغول ہوں ۔ میرے تجربات کا مقصد عوام کے لیے کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی چیزیں تیار کرنا ہے۔ 1998میں پاکستان میں پہلی بار ایک سائیکل کو LPGپر کنورٹ کیا گیا تھا۔ 110kg وزن اُٹھا کر اس کی سپیڈ 45 کلومیڑ فی گھنٹہ تھی ۔ وہ سائیکل 25روپے کی گیس میں120 کلومیٹر فاصلہ طے کرسکتی تھی۔ وہ سائیکل میں نے عوام کو سستی سواری فراہم کرنے کے لیے بنائی تھی۔

1999میں میں نے 110CC موٹرسائیکل کو LPG پہ کنورٹ کیا تھا۔ ان دنوں کسی موٹرسائیکل یا گاڑی کا گیس پہ چلنا حیرت کی بات سمجھی جاتی تھی۔

2001میں ڈیزل انجن کو گیس پرکنورٹ کیا۔ (اس تجربے کے دوران پہلا انجن دھماکے سے پھٹ گیاتھا)۔

2002میں ونڈ ٹربائین بنائی 20فٹ اونچائی کی آٹھ ،آٹھ فٹ کے پروں والی اس ٹربائیں کی مدد سے کئی ایکڑ زمین کو ہوا کی مدد سے پانی کی فراہمی ہو تی تھی۔

2003میں لوپریشر گیس پر چلنے والا دنیا کا پہلا ہوائی جہاز بنانے کے لیے کافی سامان جمع کرلیا تھا ۔ لیکن اس تجربے میں جان کا خطرہ ہونے کی وجہ سے بزرگوں نے روک دیا۔

2004میں میں نے پہلا منی واٹر کولر متعارف کروایا جو ان دونوں تقریباً 1200روپے میں تیار ہو جاتا تھا۔10kg کایہ واٹر کولرکہیں بھی دیوار کے ساتھ نصب ہو جاتا تھا ۔ اس واٹر کولر کی پانی کوبہترین ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت 60kgپر Hourتھی۔ وہ واٹرکولر بغیر اسٹیبلائزر کے انتہائی کم بجلی پر چل کر بھی بہترین رزلٹ دیتا تھا۔

2006 میں منی CNGپمپ کا ماڈل بنایا تھا ۔ جس کی طاقت 500ps اور سپیڈ 2800 راونڈ پر منٹ تھی۔ بہترین ٹھنڈی گیس دستیاب ہوسکتی تھی۔

2008بائیوگیس کے CNG اسٹیشن کا منصوبہ کئی وزراء کو بھیجا۔ اس پرجیکٹ کی مدد سے قدرتی گیس کی مین لائن پر لوڈ کم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔

2008میں نہروں سے بجلی پیدا کرنے کامنصوبہ پیش کیا۔ جس کی مدد سے مہنگے تیل سے چلنے والے تمام بجلی گھر بند ہوسکتے تھے اور ہمارے ملک میں سستی اور وافر بجلی دستیاب ہو سکتی تھی ۔ جس سے لوڈشیڈنگ ختم ہوسکتی تھی۔ 05.08.2008 جنگ(ملتان) میں اس کے ساتھ ساتھ کئی اور منصوبے بھی شامل تھے۔

وقت کی ضرورت

انشااللہ مستقبل میں عوام کے لیے میرے پاس چنداور پروجیکٹس ذیل میں ہیں۔

سولرسائیکل ۔عام سائیکل کو سولر سائیکل بنانے کے لیے اس میں تقریباً 8000روپے کے کچھ الیکٹرک پارٹس کاسیٹ نصب کیا جائے گا۔ اس سولر سائیکل کی سپیڈ 15سے 20کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ سورج کی روشنی سے ایک بار فل چارج ہونے پرتقریباً 20 کلومیٹرتک کا فاصلہ طے ہوسکے گا۔(وزن کی کمی بیشی سے کلومیٹرز میں فرق آسکتا ہے) ۔ اس سولر سائیکل میں وہ پارٹس استعمال کیے جائیں گے جو باآسانی ہر جگہ دستیاب ہوسکیں اور سستے ہوں ۔ تاکہ ہر ضرورت مند اس کو باآسانی تیار کروا سکے۔ ہماری غریب عوام کی محنت کی کمائی کا 20 سے 40فیصد اس کے قریبی سفر کے اخراجات میں ضائع ہوجاتاہے جو اس سائیکل کی مدد سے ان کی بچت میں شامل ہوسکتا ہے۔

قدرتی گیس یابائیو گیس پر چلنے والی منی آئس فیکٹری ۔یہ فیکٹری بائیوگیس یا قدرتی گیس کی مدد سے انتہائی کم خرچ سے چل سکے گی۔اور روزانہ تقریباً 1ٹن تک برف مہیاکر سکے گی۔اس منی آئس فیکٹری کو باآسانی کبھی بھی کہیں بھی شفٹ کیا جاسکے گا ۔عوام کو سستی برف دستیاب ہو سکے گی اور کم سرمایہ میں تیار ہونے کی وجہ سے عام لوگ اسے باآسانی تیارکروا اپنا کاروبار وسیع کرسکیں گے۔

Air Conditioner

Air Conditioner

قدرتی گیس یابائیو گیس پر چلنے والا Air Conditioner ۔یہ1.5ٹن کا Air Conditioner بائیوگیس پر بالکل مفت (موبل آئل کے خرچ کے علاوہ) یا قدرتی گیس پر 30سے 40روپے روزانہ کے خرچ سے(8گھنٹہ روزانہ) چل سکے گا۔اس کے پارٹس بھی سستے اور عام دستیاب ہوں گے ۔ عام لو گ خود با آسانی اس کو اسمبل کر کے اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

خرگوش فارم سے بے روزگاری میں کمی

خرگوش فارمنگ کو عام کرنا۔ جدیدخرگوش فارمنگ کی مدد سے ایک معمولی فارمرسالانہ 5 سے 15لاکھ روپے کماسکتا ہے۔ جیسے آج سے 25سال پہلے سے برائلر مرغی کی سیل کے لیے محنت کی گئی جس کے نتیجے میں یہ انڈسٹری کا مقام حاصل کر چکی ہے اور تقریباً 400 ارب روپے سالانہ کا کاروبار کر رہی ہے۔ اسی طرح انتہائی کم خرچ کم محنت کم وقت کم جگہ میں سادہ اور سستی قدرتی خوراک پر تیار ہونے والے جانور خرگوش کو بھی آج بہترفارمنگ اور مارکیٹنگ کی ضرورت ہے۔ اس پروجیکٹ سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں کمی آسکتی ہے اور عوام کو سستا اور بہترین گوشت میسر آسکتا ہے۔ خرگوش فارمنگ کا پروجیکٹ پولٹری فارمنگ کی نسبت سستی فیڈ (گھاس وغیرہ)کم لیبر، موسمی شدت کی زیادہ برداشت، نہ ہونے کے برابر میڈیسن اور سلف بریڈنگ وجہ سے کئی گناہ زیادہ منافع دے سکتا ہے۔

کیسٹرو آئل ۔شاید آپ جانتے ہوں کہ کیسٹرہو آئل کو کسی بھی ڈیزل انجن میں ڈیزل کی جگہ کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے۔ ارنڈکا پودا ایک جڑی بوٹی کی حیثت رکھتا ہے۔ یہ معمولی زمین اور معمولی کڑوے یانمکین پانی سے بھی500kg سے 700kgپرایکڑ تک پیداوار دے سکتا ہے۔ اس کو بہت زیادہ کھاد، محنت اور پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ارنڈکا پودا ایک بار کاشت کے بعد کئی سال تک فصل دینے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس کے تازہ بیج میں سے40%تک تیل نکلتا ہے۔ا گر ہر زمیندار اپنی ضرورت کا ڈیزل خود تیا ر کرلے تو کسان کی بچت کافی بڑھ سکتی ہے اور ڈیزل کی درآمد میں کمی آسکتی ہے۔اگر انڈیا کی ریلوے کے ڈیزل کا 25% بائیوڈیزل سے پورا کیا جاسکتا ہے تو ہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔

بائیوگیس ۔ ہمارے کسان کا صرف ٹیوب ویل کا سالانہ کاخرچ لاکھوں روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ میری کوشش ہے کہ پورے ملک کے ٹیوب ویل اور چھوٹی انڈسٹری کو بائیوگیس پر کنورٹ کردیا جائے ۔ ڈیزل کی درآمد کے لیے ضائع ہونے والا سالانہ کا اربوں روپیہ ہمارے محنت کشوں کی بچت بن سکے اور کم لاگت سے تیار ہونے والی سستی اشیا عوام کو میسر آسکیں۔اگر بنگلادیش میں بڑے پیمانے پر انڈسٹری بائیوگیس پر چل سکتی ہے تو ہم اپنی سستی سے اپنی انڈسٹری کو کیوں تباہ ہونے دے رہے ہیں۔

ہواسے توانائی۔ پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں ہلکی یا درمیانی ہوا تقریباً سارا سال چلتی رہتی ہے۔ہوا سے مفت توانائی حاصل کرنے کے لیے ہمارے ملک میں کو ئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس سلسلے میں میرے پاس عوام کے لیے دو پروجیکٹس ہیں۔ چھوٹا اور درمیانہ۔ چھوٹا پروجیکٹ گھر کی پانی کی ٹینکی پر نصب ہوگا جہاں ہوا کا گز ہو سکے ۔ اور انتہائی معمولی ہوا سے بھی کیم ٹائپ حرکت سے پمپ کو چلائے گا۔(یہ سسٹم صرف پسٹن ٹائپ پمپ کے لیے ہوگا)۔ اس کی مدد سے پانی کی ٹینکی مفت میں بھرتی رہے گی۔ اور واٹر پمپ کا بجلی کا خرچ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ درمیانہ پروجیکٹ ان علاقوں کے چھوٹے کسانوں کے لیے ہے جہاں اکثر درمیانی ہوا چلتی رہتی ہے۔ اس کی مدد سے 2سے 4ایکڑ تک زمین کو بالکل مفت سیراب کیا جاسکے گا۔

نہروں سے مفت توانائی حاصل کرنے کا منصوبہ۔ ہمارے ملک کے نہری نظام میں پانی کی زرعی زمینوں تک مناسب ترسیل کے لیے ہزاروں مقامات ہیڈبرجز بنائے گئے ہیں۔ ایک عام نہر کے ہیڈبرج کے پانی کنٹرول کرنے والے صرف ایک گیٹ میں سے سادہ ورٹیکل ٹربائین کے ذریعے 20سے 30ہارس پاور طاقت بالکل مفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر اتنی ہی طاقت کسی ڈیزل انجن سے مسلسل سارا سال حاصل کی جا ئے تو(ڈیزل کے آج کل کے ریٹ تقریباً 120کے حساب سے) تقریباً 20سے 25لاکھ روپے ضائع ہوں گے۔ پورے پاکستان میں ہزاروں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں سے لاکھوں ہارس مفت حاصل کر کے اس سے ڈائریکٹ چھوٹی انڈسٹری چلائی جا سکتی ہے یا اس طاقت سے ہزاروں میگا واٹ بجلی حاصل کر کے میں سپلائی میں شامل کر کے لوڈشیڈنگ ختم کی جاسکتی ہے۔.میں اپنا مختصر ساتعارف کروانا چاہتا ہوں تا کہ عام لوگوں کی ایک بڑی غلط فہمی دور ہو جائے کہ کچھ ایجاد یا دریافت کرنے کے لیے اس کے متعلقہ شعبہ کی ڈگری حاصل کرنا لازمی ہے۔ میں کبھی کسی ٹیکنیکل کالج میں نہیں گیا۔ اللہ تعالی کی مہربانی سے میں نے اپنے مسلسل تجربات سے ہی تھوڑا بہت سیکھا ہے۔ میں نے پرائمری کاامتحان 1988 میں گوٹھ عزیز الدین ،تحصیل فیضگنج ،ضلع خیرپورمیرس سندھ سے پاس کیا ۔1987سے 1992 تک رحیم یارخان کے مختلف اسکولوں (جامعہ الفاروق اسلامیہ، بہاری کالونی میڈل سکول اور پاکستان پبلک اسکول)میں 9thکلاس تک زیرتعلیم رہا۔ 1992 میں سندھ میں بارشوں نے تباہی مچادی جس کی وجہ سے تعلیم روک کر واپس سندھ جاناپڑا۔ 1996میں گورنمنٹ ہائی سکول بھریاروڈ سے میٹرک،1998میں گورنمنٹ ڈگری کالج کرونڈی سے FSC،2004میں سپریئر سائنس ڈگری کالج خیرپور سےBScاور 2006میں گورنمنٹ ڈگری کالج کرونڈی سے MAکاامتحان پاس کیا۔

ٹیکنکل تجربات کا شوق رکھنے کی وجہ سے آج بھی میں ٹیکنکل (مکینیکل) کے شعبے میں خدمات سرانجام دینا چاہتا ہوں۔ اب مجھے شدت سے احساص ہوتا ہے کہ مجھے BScاور MA کی بجاے ٹیکنیکل میں کوئی ڈگری حاصل کرنی چاہیے تھی ۔ کیونکہ ہمارے ملک میں جھوٹی یا سچی ڈگری دیکھی جاتی ہے انسان کی قابلیت اور مہارت نہیں دیکھی جاتی۔2006 سے 27.01.2011 ہائیر اورپاک عرب فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ کے ساتھ کام کیا۔ 28.01.2011سے اب تک فاطمہ فرٹیلائزرز کمپنی لمیٹڈ میں ایزآفس اسسٹنٹ کام کر رہا ہوں ۔تقریباً ہر چھٹی کا دن تجربات میں گزرتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان میرے پسندیدہ انسان ہیں۔اگر کوئی بھی دوست کسی پروجیکٹ پر اپنے خیالات شئیر کرنا چاہے تو مجھے خوشی ہوگی۔

afzalameen1@gmail.com یا afzalameen1@yahoo.com سب نوجوانوں سے میری خاص درخواست ہے کہ فری ٹائم میں اپنے کسی بھی پسندیدہ پروجیکٹ پہ ریسرچ ضرور جاری رکھیں۔ ناکامی کامیابی کی سیڑھی ہے۔ ہوسکتا کہ آپ عوام کی سہولت اور بھلائی کے لیے کوئی ایسی چیز بنادیں جو صدقہ جارییہ بن کر آپ کے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی کا سبب بن جائے۔میر ی کوشش اور دعا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بے روزگار نہ رہے۔روزگار کے اتنے وافر ذرائع پیدا کر دئے جائیں کہ کسی کو مہنگائی محصو ص نہ ہو۔ ہمارے ملک سے صرف ایکسپورٹ ہو ۔ہمیں ڈیزل ، پیٹرول ، LPG، سمیت کو ئی بھی چیز امپورٹ نہ کرنی پڑے۔آئیے ہم سب مل کر اپنے لیے اور آنے والی نسل کے لیے اپنے ملک کو قابل فخر اور عظیم بنائیں۔

محمد افضل امین آرائیں

وقت کی ضرورت

خرگوش فارم سے بے روزگاری میں کمی