پاکستان بچانا ہے، اندھیروں کو مٹانا ہے، کالا باغ ڈیم بنانا ہے

Kala Bagh Dam

Kala Bagh Dam

پیرس (عاصم ایاز سے)ڈیم کیلئے پہلی تجویز قائداعظم نے 1948میں دی تھی۔ اس پر باقاعدہ کام 1953میں شروع ہوا۔ اس ڈیم میں دریائے سندھ کے علاوہ دریائے کابل، کنڑ، سوات، دیر اور سواں کا پانی بھی جمع ہو سکتا ہے۔ اس ڈیم کی بالائی سطح کی اونچائی سطح سمندر سے 925 فٹ رکھی گئی تھی۔ صوبہ سرحد کو راضی کرنے کیلئے اسکی اونچائی کم کرکے 915 فٹ کر دی گئی۔ اس کا سپل وے پیندے سے 50 فٹ نیچے ہے جس کی وجہ سے سلٹ جمع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چنانچہ اس کی لائف لا محدود ہے۔ ڈیم سے 3600 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ بعد میں بجلی کی پیداوار کو 4500 میگا واٹ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین(ڈیم)نے باقائدہ سروے اور تحقیق کے بعد کالا باغ ڈیم کو دنیا کا موزوں ترین ڈیم قرار دیا ہے۔ ان ماہرین میں ڈاکٹر پیٹر لیف نک بھی شامل ہیں جو 1965میں ورلڈ بینک کی مطالعاتی ٹیم کے اہم رکن تھے۔

انکے علاوہ عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ساویج بھی کالا باغ ڈیم کی جگہ اور سائیٹ کو موزوں ترین قرار دے چکے ہیں۔ ان ممتاز ماہرین نے اس دشوارگزار علاقے کا ایک عرصہ تک سروے کیا اور نتائج اخذ کرتے ہوئے اسے دنیا کی موزوں ترین سائیٹ قرار دیا۔ ڈیم کی تعمیر میں زیر آب آنیوالی قابل کاشت اراضی 27500 ایکڑ میں سے 24500 ایکڑپنجاب اور3000ایکڑ صوبہ سرحد کی ہوگی۔ ڈیم کیلئے حاصل کردہ کل رقبہ 159712 ایکڑ ہے جس میں سے پنجاب کا 100399 ایکڑ(67%) اور صوبہ خیبرPk کا 59333 ایکڑ(33%) ہوگا۔

کالا باغ ڈیم سے 40کلو میٹر بہ جانب مشرق پیر پہائی کے مقام پر سٹاف کالونیز، دفاتر، واپڈا لاجز، ہسپتال، سکول اور پاور ہاوس کیلئے عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ کروڑوں ڈالر کی لاگت سے خریدی گئی مشینری کھلے آسمان کے نیچے پڑی خراب ہو رہی ہے۔ سڑکیں اور ریلوے ٹریک تک بن چکا ہے۔اگر وقت پر ڈیم بن جاتا تو ہم ابتک ایک کھرب ڈالر کا منافع کما چکے ہوتے۔ معیشت میں بہتری کا گراف الگ ہوتا۔ضیا الحق کے دورمیں جنرل فضل حق کی مخالفت کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کالا باغ ڈیم کیلئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔

آصف زرداری کا تعلق بھی سندھ سے ہے۔ انہیں بھی ان کوششوں کا ضرورعلم ہوگا۔ جو انھوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے کی تھیں۔ اس سلسلہ میں چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان کی کمیٹی بھی بنائی گئی۔ جن کے ذمہ اس ڈیم کا ہر لحاظ سے جائزہ لینا تھا۔ چاروں چیف جسٹس صاحبان نے اس ڈیم کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس میں سندھ کے چیف جسٹس بھی شامل تھے۔ چیف جسٹس صاحبان نے تمام صوبوں کے اعتراضات بھی سنے تھے۔ سندھ کی ڈیم مخالف لابی صوبہ سرحد کی طرف سے ولی خان کی مخالفت کے بعد وجود میں آئی تھی۔ کیوں؟ اس میں بعض مفاد پرست حلقوں اور اندونی اور بیرونی کمپنیوں کا ہاتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔