چار پیاروں کی زد میں سیاستدان

election in pakistan

election in pakistan

ہمارے ملک میں جب بھی الیکشن کی فضاہیں شروع ہوتی ہیں سیاستدان عوام کو سبز باغ دیکھانا شروع کر دیتے ہیں ان کے ساتھ یوں ملتے ہیں جیسے انہیں جنم جنم سے جانتے ہوں مگر جوں ہی الیکشن ختم ہوتے ہیں سیاست دان کی آنکھیں طوطے کی طرح پھر جاتی ہیں اور روایتی چار پیارے ان کے گرد اپنا حصار بنا لیتے اس حصار میں وہ غریب جنہیں الیکشن میں نہ جانے کتنا نقصان ہوا ہوتا ہے نظر نہیں آتے اور وہ معمولی سے کام کے لئے بھی ایم پی ائے کے در پر ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں یا ان چار پیاروں جنہوں نے الیکشن میں اس ایم پی ائے کی مخالفت کی ہوتی ہے اب ان کے پیاروں کی لسٹ میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں ان کی خدمت کر کے آنے والے الیکشن میں نئی حکمت عملی تیار کر رہے ہوتے ہیں مگر اگلے الیکشن میں ووٹر بچارہ برادری کے بڑون کے ہاتوں قربانی کا بکرا بن کر پھر اسی شخص کو اپنا لیڈر بنا کر نعرہ لگاتا ہے قدم بڑھائو ہم تمارے ساتھ ہیں پھر وہی قصہ شروع ہو جاتا ہے اس کہانی کا آغاز میں نے اس لئے شروع کیا ہے مجھے ان دنوں ایک مقامی ایم پی ائے کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے یہ ایم پی ائے میرا اچھا دوست بھی ہے مگر کیا کیا جائے جب قلم اٹھانے کی باری آتی ہے تو دوستیاں ایک طرف اور قلم کی حرمت دوسری طرف کھڑی ہوتی ہے میں نے عوام کو گلے شکوے کرتے تو سنا تھا مگر ان کی باتوں پر یقین کبھی نہیں کیا اب جب مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ لوگ سچے ہوتے ہیں میرا دوست بھی اپنے قصیدے پڑنے والوں کو جو اہمیت دے رہا تھا اس کے سامنے اس کے حقیقی دوستوں کو اہمیت ہی نہیں تھی ان کے پیاروں نے قصیدے پڑھ کر اپنے تھڑے بھی پکے کرا لئے مگر ان کے ووٹر اور حقیقی خیر خواہوں کی گلیا ں ایسی ہیں کہ اگر ان کے ہاں کوئی مریض ہو جائے تو اور اوپر سے ابر کرم بھی ہو جائے تو وہ اپنے گھروں میں محصور ہو جاتے ہیں کوئی گاڑی ان کے گھر تک نہیں جا سکتی اور وہ بیچارہ بڑی امیدوں کے ساتھ جب ایم پی ائے ہاوس پہنچتا ہے تو اس جس کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہی بہتر سمجھتے ہوئے واپس چلا جاتا کہ اس سے بہتر تو یہی ہے کہ ہم کیچڑ والے راستے ہی استعمال کرتے رہیں دوسری طرف وہی ایم پی ائے جب دعوی کرتا ہے کہ میں نے دو ارب روپے کے ترقیاتی کام کرائے ہیں تو میرے جیسے کم ظرف صحافی جزبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے سٹیج پر نعرے لگاتے نظر آتے ہیں گویا وہ بھی قصیدہ خواہوں کی لائن میں لگ کر کسی مراسی سے کم نظر نہیں آرہے ہوتے مگر کیا کیا جائے آخر انسان جو ہوئے اہوں نے بھی تو کچھ کام نکلوانے ہوتے ہیں اب سوچنا یہ ہے کہ ملک میں تبدیلی آئے کیسے۔

انقلاب کا نعرہ لگانے ولوں کی لائن میں بھی تو یہی چہرے پارٹی بدل کر پہنچتے ہیں اور پھر نئے سرے سے یہی کہانی دہرائی جا تی ہے اس وقت میری ذاتی رائے کے مطابق چالیس فیصد سے زاہد لوگ ووٹ کاسٹ نہ کرنے کے حق میں ہیں ان کا خیال بھی یہی ہے کہ ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں یہ نہ سہی اس جیسا ایک اور سامنے آجائے گا اگر چار پیار وں نے اپنا کام یونیہی جاری رکھا تو کچھ عرصہ بعد عوام ووٹ کو گالی سمجھیں گے تو پھر ملک کیسے چلے گا ملک میں تبدیلی کیسے آئے گی ،،،،، کیا قوم کسی خونی انقلاب کی طرف تو نہیں جا رہی اگر ایسا ہو گیا تو یہ سوال چونکا دینے والے ہیں مگر شاہد ہمارے لیڈران اور ان کے روایتی چار پیارے یہ خطرہ بھانپ نیں رہے مگر یہ لوگ تو مفاد پرست ہیں انہیں کسی سے کیا اگلے الیکشن میں وہ کسی نئے لیڈر کے چرنوں میں جا بیٹھیں گے ہمیں اب لیڈوروں کے ساتھ ساتھ ان چار پیاروں کا بھی خیال رکھنا پڑے گا جو الیکشن کے دنوں ہمارے ووٹوں کی قیمت لے کر اگر وہ لیڈر ہار بھی جائے تو وہ جیتنے والے لیڈر کیے دم چھلے بن جاتے ہیں اور پرانے قصے پھر سے شروع کر دیتے ہیں یہ لوگ اس لیڈر کے دوست نہیں بلکہ دوست نما دشمن ہوتے ہیں جو انہیں ان کے خیر خواہوں سے دور کر دیتے ہیں

ختم ہو جاہیں گی جب کیمرے کی سازشیں
کیمرے ہٹ گئے تو بونے سے نظر آئو گے

اب عوام باشعور ہو چکے ہیں نہیں اب شائد بیوقوف بنانا مشکل ہو اب یا تو چار پیاروں کی سیاست ختم ہو جائے گی یا اب ان لیڈروں کا خدا ہی حافظ ہو اللہ ان کو عقل دے تاکہ وہ اپنے اچھے برے کو پہچان سکیں۔

تحریر : ریاض احمد ملک بوچھال کلاں