چھوٹی خبر بڑی بات

Rohail Akbar

Rohail Akbar

ایک چھوٹی سی خبرجسے اکثریت نے تو بڑے مزے لے لے کر پڑھا ہو گا اور سیاسی کارکنوں نے ایک دوسرے پر فقرے بھی کسے ہونگے مگر اصل میں یہ خبر بڑی بھیانک اور خوفناک تھی جسے پڑھ کر دل دھل گیاکہ ہمارے حکمرانوں نے قائد اعظم کی محنت ، اقبال کے خواب اور ہزاروں مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد قائم ہونے والے پاکستان کا کیا حشر کر دیا کہ جہاں پر لوگ صرف ایک وقت کے کھانے کیلیئے کیا کچھ نہیں کرجاتے جس سے نہ صرف پاکستان کا وقار اپنوں میں مذاق بن جاتا ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ پیغام بھی چلا جاتا ہے کہ ہم لوگ صرف کھانے کیلیے زندہ ہیں دیکھنے کو یہ صرف ایک خبر ہے کہ اتوار کودادو میں مسلم لیگ (ق) کا جلسہ اس وقت بدنظمی کا شکار ہوگیا جب چوہدری شجاعت حسین نے اپنی تقریر شروع کی تھی کہ کسی کارکن نے آواز لگادی کہ کھانا شروع ہوگیا ہے جس پر مسلم لیگ(ق) کے کارکنوں نے آئو دیکھا نہ تائو اور کھانے پر ٹوٹ پڑے کارکن کھانا دیگوں سے نکال کر کھاتے رہے اور جو کھانا بچ گیا وہ چادروں اور پارٹی پرچم میں باندھ کر ساتھ لے گئے۔

یہ صرف ایک جماعت کے کارکنوں کا ہی کارنامہ نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت میں یہی ہو رہا ہے کہ سیاسی جلسوں میں عوام کو کھانے کا لالچ دیکر بلایا جاتا ہے اور پھر انکی بھوک کا مذاق اڑا کر انہیں تقریریں سننے پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر جیسے ہی کھانے کی دیگیں میدان میں پہنچتی ہیں تو پھر صبر ختم ہو جاتا ہے اور کھانے پر عوام ٹوٹ پڑتی ہے پاکستان اور اسکی عوام کا یہ حشر کرنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ یہ ہمارے اپنے ہی ہیں جنہوں نے ہمیں خوشحالی کا لالچ دیکر ہمیں ہی لوٹا اور خود خوشحال بن گئے اپنے خاندان اور عزیز واقارب کو بھی جی بھر نوازا اس ملک کو بھی لوٹا اور عوام کی گردنوں پر بھی چھری چلائی خود تو ٹیکس نہیں دیے غریب عوام کو روٹی ،کپڑا اور مکان کا جھانسہ دیکر ان بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کردیا یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان میں ووٹ بکتے ہیں ہر کوئی کچھ نہ کچھ کمانے کے چکر میں اور اسکے لیے اسی خواہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے کیونکہ ہر پاکستانی نے اپنے بچوں کو بھی پالنا ہے گھر کا کرایہ بھی دینا ہے بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی فیسیں بھی دینی ہے۔

جبکہ روزگار کوئی نہیں اگر کسی کا کوئی روزگار ہے بھی تو وہ اس قابل نہیں ہے کہوہ یہ سب اخراجات اپنی جیب سے پورے کرسکے جبکہ اس ملک پر قابض ڈاکوئوں نے لوٹ مار کا ایسا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے کہ ان کو دیکھ کر سب اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اب ہر کوئی کسی نہ کسی چکر میں دوسرے کی جیب صاف کرنے کا کوئی نہ کوئی منصوبہ بنائے ہوئے ہیں کوئی کسی کو نوکری کا جھانسہ دیکر لوٹ رہا ہے تو کوئی کسی کو تھانے کچہری میں الجھا کر دیہاڑی لگا رہا ہے اور تو اورمختلف محکموں بلخصوص پولیس اور انٹی کرپشن کے ٹاؤٹوں نے بھی لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے یہ سب لوگ جو کسی نہ کسی کو چھری پھیر نے چکر میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کررہے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت ان سب کو انکی معاشی پریشانیوں سے نجات دلانے کا کوئی انتظام کرتی خود بھی لوٹ مار بند کرتی اور پاکستان کی ترقی کا زریعہ بھی بنتی۔

مگر یہاں پر آج تک جو بھی آیا اس نے لوٹ مار ہی کی اگر کوئی کسی سرکاری محکمہ میں چلا گیا تو اس نے اپنی اوقات کے مطابق وہاں پر بھی لوٹ مار شروع کردی جس کا جتنا اختیار ہوتا وہ اتنی ہی لوٹ مار کرلیتا عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے یہ سرکاری ساؤنڈ ٹیلی فون سے لیکر بڑی بڑی عیاشیاں سرکاری خرچ پر کررہے ہیں جبکہ سرکاری گاڑیا ں اور سرکاری پیٹرول کا بے دریغ استعمال ایسا کرتے ہیں جیسے یہ لوٹ کا مال ہو جبکہ آج کے دور کا غریب اور موٹر سائیکل سوار پچاس روپے کا پیٹرول ڈلواتے ہوئے بھی پچاس بار سوچتا ہے اور اسی وقت اپنی موٹر سائیکل استعمال کرتا ہے جب اسے ضروت ہوتی ہے۔

Pakistan Politicians

Pakistan Politicians

جبکہ ہمارے سرکاری افسران مال مفت دل بے رحم کی زندہ مثال بن کر ڈاکے ڈالنے میں مصروف ہیں اور جہاں پر ایسے حکمران اور افسران ہو وہاں پر ملک کے عوام بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جو صرف پارٹی جلسوں میں اسی لیے جاتے ہیں کہ کھانا ملے گا اور اسی کھانے کی بھوک کو دیکھتے ہوئے ہمارے سیاستدانوں نے عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ حاصل کیے اور پھر اسی ووٹ کی طاقت سے نوٹ کمائے خود تو کچے مکانوں سے محلوں تک پہنچ گئے اور بیچاری عوام کو چھت سے بھی محروم کردیا اور آج انہی حکمرانوں کی وجہ سے پورے ملک میں سے گنتی کے چند ایماندار اور فرض شناس انسانوں کا ملنا مشکل ہو گیا ہے اگر کوئی باامر مجبوری اور دکھاوے کیلیے ایماندار ہے تو اسکے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے

تحریر : روہیل اکبر
03466444144