ڈاکٹر طاہر القاری نے بیٹوں سمیت خاندان کے دیگر افراد کے الیکشن لڑنے کی نفی کر دی

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

میری جد و جہد صرف پاکستانی عوام کے حقوق اور حقیقی جمہوریت کے قیام اور آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ہے۔ پاکستان کے عوام، مزدوروں، کسانوں، تاجروں، وکلا اور غرباء کو شریک اقتدار کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔ کسی نگران سیٹ اپ کا امیدوار ہوں اور نہ ہی آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا خواہش مند، پوری قوم کا کئیر ٹیکر اور اُن کے حقوق کا محافظ و علمبردار ہوں۔

ان خیالات کا اظہار تحریک منہاج القرآن کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مرکزی سیکرٹریٹ میں ایک خصوصی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی یا نہیں اس کا فیصلہ پارٹی کے مشاورتی نظام کے تحت CEC، ایڈوائزری کونسل، فیڈرل کونسل اور پھر جنرل کونسل کے اجلاسوں میں بتدریج اور مرحلہ وار مشاورت کے بعد ہوگا۔ آئندہ انتخابات کے حوالے سے ایک اہم اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتخابات کے لیے پارٹی جو بھی فیصلہ کرے لیکن میں خود یا میرا کوئی فیملی ممبر ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گا کیونکہ میں موروثیت کے مخالف ہوں۔

اگرچہ میرے دونوں بیٹے ڈاکٹر ہیں اور اہلیت بھی رکھتے ہیں لیکن میرے دونوں بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، تینوں صاحبزادیوں یا دونوں دامادوں میں سے کوئی بھی ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گا۔ میں نے 2004ء میں ہی اعلان کر دیا تھا کہ آئندہ میں انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا۔ میں اس اعلان کے ذریعے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی روایت کی ابتداء کر رہا ہوں اور یہی حقیقی جمہوریت اور جمہوری مزاج ہے۔ پاکستان کے تمام قائدین سیاست دان نہیں لیڈر ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے مزید کہا کہ پاکستان کے مسائل کا حل آمریت نہیں بلکہ حقیقی جمہوریت میں ہے۔ اور جو حکومت پانچ سال میں ڈلیور نہیں کرسکتی اسے گزشتہ حکومت پر الزام دینا مناسب نہیں کیونکہ ڈلیور کرنے کے لیے پانچ سال کا وقت بہت ہے۔ لانگ مارچ کے حوالے سے گفت گو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب حکومتیں ناکام ہوجاتی ہیں تو پُراَمن احتجاج ہوتا ہے اور ہمارے لانگ مارچ نے زبردست کام یابی حاصل کی ہے۔ اس لانگ مارچ سے عوام نے جو حاصل کیا جمہوریت میں رہتے ہوئے یہی ہوسکتا ہے کیونکہ مارشل لاء کوئی حل نہیں۔

لانگ مارچ کی کام یابی ہی ہے کہ الیکشن کمیشن نے پری پول دھاندلی پر ایکشن لے لیا ہے۔ عوام کو آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور حقیقی نمائندگی کا شعور ملا ہے۔ الیکشن سے پہلے فنڈز روک دیے گئے ہیں اور 218 (3) نے پری پول دھاندلی کے سامنے بند باندھ دیا ہے۔ نیز 1976ء کے ایکٹ کے تحت 30 دن کی اسکروٹنی کا آغاز ہوگیا ہے۔

لانگ مارچ کی کام یابی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اسلام آباد اعلامیہ کو الیکشن کمیشن نے قبول کرتے ہوئے اصلاحات کا عمل شروع کردیا ہے کیونکہ اس کے لیے پارلیمنٹ کی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔