ڈیپریشن سے بچیں(2)

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

ڈپریشن کیوں ہوتاہے؟ اس سوال کا ایک جواب تو مجھے حضرت واصف علی واصف صاحب کے قول سے مل گیا جو حقیقت کے بہت قریب ہے ”حضرت واصف علی واصف صاحب کا وہ قول کچھ یوں ہے کہ ڈیپریشن انسان کو اس وقت ہوتی ہے جب وہ چاہتا کچھ اور ہے اوراسے ملتا کچھ اور ہے اور جو اسے ملتا ہے اس کو وہ پسند نہیں کرتا ”جہاں تک میری سمجھ میں آیا اس کے مطابق واصف صاحب کا اشارہ شکر کی طرف ہے وہ اس لیے کہ انسان جوکچھ زندگی میں حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اسے نہیں ملتا ،انسان کچھ بھی کرلے ملتا وہی ہے جوتقدیر میں لکھا ہوتاہے اورجو اللہ تعالیٰ عطاکرے ۔لیکن انسان خواہش نہ کرے یہ ناممکن ہے۔

جب تک سانس چلتی ہے انسان کی خواہشیں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔ جو لوگ خواہش کے پورا ہونے یا نہ ہونے دونوں طرح کے حالات میں اپنے رب تعالیٰ کا شکرادا کرتے ہیں ڈیپریشن ان کے نزدیک بھی نہیں جاتی ،نتیجہ یہ کہ اگر انسان کسی خواہش کے پور نہ ا ہونے پر ڈیپریشن جیسے خوف ناک مرض سے بچنا چاہتا ہے توبجائے اس کہ وہ کسی ایک چیز کے نہ ملنے کی وجہ سے ناشکری کرے اسے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکرادا کرنا چاہیے اس طرح نہ صرف ڈیپریشن سے بچا جاسکتا ہے بلکہ روز آخر کی شرمندگی سے بھی نجات حاصل ہوجائے گی۔ لیکن جب یہ مرض لگ جاے تو مریض کو چاہیے کہ اسے لاعلاج سمجھنے کی بجائے اس کا ہر طرح سے علاج کرے ۔جس میں روحانی علاج کے ساتھ ساتھ میڈیکل سائنس کا سہارہ لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ ڈیپریشن کے بارے میں میڈیکل کیا کہتی ہے یہ بات سمجھنے کے لئے مجھے ایک ڈاکٹرکے پاس جانے کی ضروت پڑتی اگر میرے پاس اپنے دوست ڈاکٹر محمد اکرام کا فون نمبر نہ ہوتا ۔

ڈاکٹر محمد اکرام ماہر نفسایات تو نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان سے بات کر کے مجھے اپنے سوال کابڑی حد تک تسلی بخش جواب مل گیا کیونکہ انھوں نے مجھے ڈپریشن کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا۔ ڈاکٹر محمد اکرام نے مجھے بتایا کہ اگرچہ ابھی تک میڈکل سائنس ڈیپرشن کی وجوہات کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ پائی ،تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ دماغ میں چند رطوبتوں کی کمی سے ڈپریشن ہوجاتا ہے ۔یہ خود بخود بھی ہوسکتا ہے یا پھر کسی واقعے یا سانحے کے ردعمل کی طور پر بھی ہوسکتا ہے۔میں نے ڈاکٹر اکرام سے سوال کیا کہ ڈیپریشن سے کس طرح بچا جا سکتا ۔ڈاکٹر اکرام کیونکہ میرے اچھے دوست بھی ہیں اس لئے ان کو میرا سوال سن کر میری فکر ہونے لگی وہ کہنے لگے پہلے تم مجھے یہ بتائو کہ تم ڈیپریشن کے بارے میں اتنی تفصیل سے کیوں پوچھ رہے ہو کہیں تمہیں یہ وہم تو نہیں ہو گیا کہ تم ڈیپریشن کے مریض ہو اگر ایسا ہے تو امتیاز صاحب سب سے پہلے یہ سن لو کہ جس شخص کو ڈیپریشن ہو جائے اس کا علاج تو ممکن ہے لیکن جس کو وہم ہوجائے اس کا علاج نا ممکن ہوجاتا ہے ۔

میں نے ان کو یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے مجھے نا تو ڈیپریشن ہے اور نا ہی وہم ہوا ہے بلکہ میں تو اس مرض کے بارے میں اس لئے جاننا چاہتا ہو ں کہ مجھے اس موضوع پر کالم لکھنا ہے ۔جس کے بعد ڈاکٹر اکرام نے مجھے بتایا کہ اگر کسی کو ڈیپریشن ہو جائے تو اسے فوراّ ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ ڈیپریشن لاعلاج مرض نہیں ہے ۔اس کا باقاعدہ اور مکمل علاج ممکن ہے ۔صرف اس کو دوسرے امراض کی طرح جسمانی مرض سمجھیں ۔اپنے خاندان کے لوگوں اور دوستوں سے گہرے رابطے میں رہیں ۔اپنی پریشانیاں اور مشکلات سے ان کوآگاہ رکھیں۔تنہائی سے بچیں ۔اپنے روزمرہ کے معمولات پرسختی سے عمل پیراہونا چاہئے۔باقاعدگی سے ہلکی پھلکی ورزش کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایاکہ اگرڈیپریشن کامریض اپنے کھانے میں پالک،مولی،مچھلی،بادام،چنے،آیس کریم اور چاکلیٹ شامل کرلے اور ڈیپریشن زدہ ماحول سے باہر نکلنے کی کوشش کرے تو چند دن میں ہی وہ بلکل تندرست ہوسکتا ہے۔

قارئین یہ توتھے ڈاکٹر اکرام کے مفید مشورے اب آئیے میں آپ کو ڈپریشن کا وہ علاج بتاتا ہوں جس کا وعدہ کیاتھا وہ علاج ہے کہ آپ روزانہ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے ادا کرنا شروع کردیں۔انشاء اللہ نہ صرف ڈیپریشن بلکہ اور بھی بہت سی بیماریاں آپ کی جان چھوڑ دیں گی :جاری ہے

تحریر : امتیاز علی شاکر