کاش ہمارے حکمران بھی

M A Tabassum

M A Tabassum

ایران کے صدر احمدی نژاد ایک انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہیں وہ جب ایران کے صدر بنے تو ان کے پاس تہران شہر کے اندر ایک چھوٹا سا آبائی گھر، ایک 77ماڈل کار اور نہ ہونے کے برابر بینک بیلنس تھا ۔ صدر بننے کے بعد بھی انہوں نے اپنے آبائی گھر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور ضرورت کے مطابق 25000ہزار روپے ماہانہ اپنی تنخواہ مقرر کی۔ صدارتی گھر کو صرف ایک دفتر کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ایک کمرے کو خالی کروا کے اس میں تین کرسیاں اور ایک میز لگوا دی گئی۔ سرکاری گاڑی ، صدر کے لیے اسپیشل جہاز اور صدارتی گھر کے تمام قیمتی قالین بیچ دیے گئے تمام اہم میٹنگز اور کابینہ کے خصوصی اجلاس آج بھی فرش پر عام سے قالین بچھا کر کیے جاتے ہیں ۔

Ahmad inejad

Ahmad inejad

احمدی نژاد اقرباء پروری کو گناہ سمجھتے ہیں اور تما م حکومتی عہدیداروں پر خاص نظر رکھتے ہیں تاکہ کرپشن اور خصوصی مراعات کا خاتمہ کیا جا سکے ۔اپنی بیوی کے ہاتھ کا پکاعام ساکھانا کھاتے ہیں اور عام سی گاڑی میں بغیر کسی پروٹوکال کے سفر کرتے ہیں ۔سڑ ک پر کھڑے کوئی نہیں جانتا کہ اس سے آگے جو گاڑی کھڑی ہے اس میں کوئی عام آدمی ہے یا ایران کا صدر ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کر رہا ہے ۔ایران کا صدر فرش پر سوتا ہے میٹنگز کرتا ہے اور کھانا کھاتا ہے۔ احمدی نژاد سے جب کسی صحافی نے پوچھا کہ جب آپ آئینہ دیکھتے ہیں تو آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے تو اس نے کہا کہ میں جب آئینہ دیکھتا ہوں تو خود کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ تو ایک ادنیٰ سا آدمی ہے جس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہاں مگر قدرت نے پوری ایرانی قوم کی ذمہ داری تم پر ڈال دی ہے اسے احسن طریقہ سے ادا کرنا ایران کے صدر احمدی نژاد نے ایک قدرتی آفت آنے پر اپنی 77ماڈل گاڑی بیچ کر عطیہ کر دی اور اب ایک عام سی سرکاری گاڑی اور جہاز میں سفر کرتا ہے ۔انگریزی آتی ہے مگر اپنی مادری او ر قومی زبان فارسی میں گفتگو کرنا اپنے لیے فخر سمجھتا ہے۔

Ahmad inejad

Ahmad inejad

احمدی نژاد نے جب اپنے بیٹے کی شادی کی تو اپنے پرانے گھر میں چند مہمان بلائے اورعام طور طریقے سے مہمانوں کی خاطرو مدارت کی گئی۔ اس شادی کی خبر صرف ایک دو اخبارات نے ہی دی وہ بھی اندر کے صفحے پر ایک کالم سے زیادہ نہیں لگائی احمدی نژاد حضرت عمر فاروق کے اس اصول پر عمل کر رہے ہیں کہ حکمران کو ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارنی چاہیے تاکہ وہ عام آدمی کے دکھ درد کو اچھی طرح سمجھ سکے یہی وجہ ہے کہ ایران ترقی کے لحاظ سے ہم سے بہت آ گے ہے اور ایک سپر پاور امریکہ کو ہر وقت للکارتا اور آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور حکمران ادنیٰ خادم ہوتا ہے۔ اب ذرا بات کی جائے ہمارے اپنے صدر جناب آصف علی زرداری کی تو جناب ہمارے صدر صاحب کے سوئس بینکوں میں ناجائز طور پر باہر بھیجے گئے 6کروڑ ڈالر موجود ہیں جنہیں وآپس نہ لانے کی قسم کھائی جا چکی ہے۔

Swiss banks

Swiss banks

اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں کہا ں کہاں محل نما گھر ہیں کہاں کہاں کس کس بینک میں پیسہ ہے اور کتنا پیسہ ہے اس کا حساب تو شاید جناب صدر کو خود بھی نہیں ہوگا اور اس پر حد یہ کہ ابھی مال بنانے کی حسرت جوان ہے ملک کی یہ حالت ہے کہ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ نے پورے ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے مہنگائی اور بے روزگاری آئے روز بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ملکی اخراجات پورے کرنے کے لیے ہر روز 3 ارب روپے کے نوٹ چھاپے جارہے ہیں جس سے افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں جس کا زور چلتا ہے وہ اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے یہ سوچ کر کہ اس کے بعد دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔ ایوان صدر پر روزانہ 13 لاکھ روپے اور وزیراعظم ہاؤس پر روزانہ 14لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں اور غریب ایک روٹی نہ ملنے کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں ۔اس سے آگے کی سنیں جناب صدر پاکستان کے بیرونی دوروں کے لیے 96کروڑ روپے اور وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں کے لیے 150کروڑ روپے الگ سے رکھے گئے ہیں ۔ایک ایران کے صدر احمدی نژاد کے بیٹے کی شادی تھی اور ایک ہمارے ہاں وزیراعظم کا تو ذکر ہی نہ کریں ان کے جیسی شاہ خرچیاں کون کر سکتا ہے۔

ایک عام وزیر مشیر کے بیٹے کی شادی ہو تو لاکھوں آتش بازی پر خرچ کردیے جاتے ہیں دیگر اخراجات تو کروڑوں میں ہوتے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر حکومتی مشینری استعمال ہوتی ہے ۔اب اگر وزیراعظم کی برطانیہ یاترا کا ذکر نہ کیا جائے تو بات ہر گز مکمل نہ ہوگی ہمارے وزیر اعظم صاحب نے صرف برطا نوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ ڈائون 10سٹریٹ میں ایک ملاقات کرنی تھی مگر ساتھ میں ایک اسپیشل جہاز کے اندر 90جیالوں کے قافلہ کو کیوں لے جایا گیا صرف اس لیے کہ خرچ تو سارا حکومتی خزانہ سے ہونا تھا چلو لندن کی سیر و تفریح ہی کر آتے ہیں ۔سینٹرل لندن کا سب سے مہنگا 5سٹار ہوٹل چرچل ہائٹ میں 90کمرے بک کیے گئے جس کا کل خرچہ پاکستانی روپوں میں 5کروڑ سے زیادہ تھا اس کے علاوہ سیر وسیاحت اور طعام کا بل کروڑوں میں الگ سے بنا۔

غریب عوام اپنے خون پسینے کی محنت سے جو ٹیکسز ادا کرتے ہیں وہ روپے ہمارے یہ وزیر مشیر یا تو خوردبرد کر جاتے ہیں یا پھر یونہی سیر سپاٹے میں اجاڑ دیتے ہیں۔ اب ایک بار پھر فیصلہ عوام کے ہاتھ میں آنے والا ہے کہ ہمیں احمدی نژاد جیساحکمران چاہیے یا پھر ہمارے موجودہ حکمرانوں جیسا جو عام آدمی کا نہیں صرف اپنا فائدہ سوچتے ہیں ۔

تحریر : ایم اے تبسم