ہندوستان سے عشق اور ہماری تجارتی پالیسی

ہندوستان سے عشق کی داستانیں آج حکمرانوں کی زبان زد عام دکھائی دے رہی ہی

manmohan singh

manmohan singh

ں۔وزیر اعظم سید یوصف رضا گیلانی تو من موہن سنگھ کو سر آنکھوپر بٹھانے کے لئے انتہائی بے چین دکھائی دیتے ہیں اور انہیں پاکستان میں بلانے کے لئے اس قدر بے چین ہیں ۔ کہ ایسی بے چینی ان کی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی،عشق کا یہ انداز شائد ہندو بنیے کو موہ لے۔ یہ وہ ہی من موہن سنگھ ہیں جو ہمیں گذشتہ قریباََ ایک عشرے سے خاص طور پر دہشت گرد کہتے چلے آئے ہیںمگر اس بات کو وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر ثابت نہیں کر سکے ہیں۔تاہم ہندوستان خود دنیا کا سب سے بڑا اور خطرناک دہشت گرد ملک ہے۔مگر چونکہ وہ کشمیر کے مسلمانوں کا دشمن ہے اور 80ہزار سے زیادہ کشمیریوں کو اپنی فوجی قوت کے ذریعے لہو میں نہلا کر شہید کروا چکے ہیں۔اس لئے دنیا کے بڑے سے بڑے انسانی حقوق کے علمبردار کو بھی ان کا بہتا لہو خون دکھائی نہیں دے رہا ہے۔یہ با ت ہمارے حکمرانوں کے علاوہ پاکستان کے  عوام کے ذہنوں میں تواچھی طرح سے موجود ہے کہ ہندوستان کھبی بھی ہمارے مفادات کونقصان پہنچانے میں دیر نہیں کرے گا۔کیونکہ یہ سب کچھ اس کی فطرت میں رچا بسا ہواہے کہ پاکستان کوجب اور جہاں اس کو موقع ملے گا پہنچانے میں دیر نہیں کرے گا اور پاکستان کے مفادات کوپسِ پشت ڈال کر اپنی پالیسیان تبدیل کرنے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں کرے گا ۔یہ ہندوستان کی دشمنی کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج 64سالوں کے گذر جانے کے باوجود بھی ہم تیسری دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک کی صف سے باہر نہیں نکل سکے ہیں اور ہمارے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ہماری منصوبہ کی نقل کر کے آج ترقیافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو رہے ہیں۔اس تمام کے باوجود ہندوستان کا ہم جیسے مخلص اور ہمدرد ملک پر اعتبارو اعتماد بحال نہیں ہوا ہے۔پاکستا ن اور ہندوستان دونوں آج بھی تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی صف میں ہی کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ہم تو ہر موقعے اور ہر معاملے میں ہندوستان کو رعائتیں دے رہے ہیں مگر ہندوستان ابھی تک اپنی پالیسیوں سے سر مو نہیں ہٹا ہے۔ جو ہم سمجھتے ہیں کہ اس خطے کی ترقی میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعض نا عاقبت اند یش اپنے تجارتی مفادا ت کے پیشِ نظر ہندوستان سے معاشی پینگیں بڑھانے کے جواز تلاش کر چکے ہیں۔ایسے تمام لوگ اس بات پر مصر رہے ہیں کہ ہندوستان کو پسند دیدہ ترین ملک کا درجہ دے کربہت بڑا کارنامہ انجام دیا جارہا ہے اور وہ لوگ اپنے اس اصرار میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ان لوگوں کو ہندوستا ن کی خطرناک مخاصمت بھی اپنے مفادات کے سامنے بہت ہی چھوٹی لگ رہی ہے۔یہ اُن کا اثر ورسوخ ہی تھا جو سر چڑھ کے بولااورانہوں نے اپنے ابدی حریف کو اپنا پسند دیدہ تر ین ملک بنا لینے میں ذرا برابرتامل نہیں کیا۔ کوئی بھی محب وطن ہندوستان کے ماضی میںہمیں پے در پے نقصانات پہنچانے کے رویئے کو فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ آج بھی ہندوستا ن کی تمام پا لیسیاں ہمارے مفادات سے متصادم دکھائی دیتی ہیں۔ جو ان کو کھلی آنکھو سے بھی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔پی پی کی کابینہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کریہ مارکہ سر کر لینے کے بعد اپنے تجارتی مفادات کو محفوظ کر لیاہے۔مگر پاکستان کو خطر ناک حد تک نقصان پہنچانے کی بھر پور کوشش کی ہے ایک جانب ہندستا ن نے بنگلہ دیش کو اپنی مٹھی میں لے کر پاکستان کے مفادات کے خلاف کام پہلے ہی شروع کیا ہوا ہے تو دوسرری جانب اپنے حمائتیوں کے ذریعے یہ پاکستان کو ہر میدان میں نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ہم نے ہندوستان جیسے خطر ناک ملک کواپنے گھر آنگن میں کھلُ کھیلنے کی مکمل چھوٹ دینا شروع کی ہوئی ہے جو کسی طرح بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔اس حکومت نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ ہندواستان سے در آمد کی جانے والی اشیاء پر ڈیوٹی صفر کردی ہے اور بعض اشیاء پر ڈیو ٹی کی مد میں صرف 5فیصد وصول کیا جائے گا ۔ دوسری جانب ہندوستان اپنے ملک میں ہمیںکسی قسم کی تجارتی مراعات دینے کو بالکل تیادکھائی ر نہیں دیتا ہے۔جو ہم سمجھتے ہیں کہ ملکی تجارت اورپید کے لئے انتہائی خطرناک کھیل ہوگا ۔ جس سے ملک میں پیدا ہو نیوالی اشیاء کی کھپت کم ہونے کی وجہ سے ان اشیاء کے کارخانے لوگوں کو بند کرنے پڑ جائیں گے۔ہاںیہ ضرور ہوا ہے کہ یہ کھیل تجاترتی کھلاڑیوں کے لئے نہایت منافع بخش ثابت ہوگا اور جو منافع خوروں کے لئے بھی انکم کے دروازے کھول کر وسیع کردے گا۔یہ عمل ملک میں چلنے والی خاص طورپر چھوٹی صنعتوں کے ساتھ کھلا مذا ق کے متراد ف ہوگا۔جو ملک میںان کی اشیاء کی کھپت نہ ہونے کی وجہ سے اور ہندوستانی اشیاء کے مقابلے مہنگی ہونے کی وجہ سے اپنی موت آپ مر جائیں گی۔کیونکہ ہماری پیداوار کے مقابلے میں ہندوستانی اشیاء سستی ہونے کی وجہ سے ان صنعتوں کاپیداواری عمل سست پڑ جائے گا اور اس طرح ہندوستان ہمیں معاشی اور صنعتی خودکشی پر آمادہ کرنے کے بعد ہمیں معا شی موت مار دینے میں ذرا بھی دیر نہیں ہونے دے گا۔ہمارے حکمران ہندوستان کے عشق میں اندھے ہوے جا رہے ہیں جبکہ ہندوستان جاگتی آنکھوں ہمیں معاشی موت کی طرف بڑ ھنے پر مجبور کئے جارہا ہے۔
ایک اہم باتیہ ہے کہ ہندوستان ہم پر دہشت گردی کے الزامات لگانے میں آج بھی کسی طرح سے پیچھے نہیںہے۔اس وقت بھی جب ہندوستان کوپسندیدہ ترین ملک ماننے کی ہمارے حکمرانونے رٹ لگائی ہوئی ہے ہندوستان کے سیکر یٹری داخلہ آر کے سنگھ نے الزام لگانے میں ذ رابھی دیر نہیں کی ہے۔ آر کے سنگھ کا کہنا ہے کہ ”پاکستان اپنی سر زمین پر دہشت گردوں کو مسلسل پناہ دے رہا ہے اور ہماری در خواستوں کے باوجود دہشت گردوں کا انفرا اسٹرکچر ختم نہیں کیا گیا ہے” دوسری جانب پاکستان اس بات کی مسلسل تردید کرتا رہاہے۔یہ بھی حقیقت کسی سے چھپی نہیں ہے کہ ایک جانب لوگوں کے تجارتی اور معاشی مفادات ہیں تو دوسری جانب امریکہ بہادر جس کی ہر آن ہماری موجودہ حکومت مرہونِ منت ہے اس کی ڈکٹیشن بھی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔کیونکہ چین کو بھی اس خطے میں قدم جمانے کی امریک اجازت نہیں دے گا یہی وجہ ہے کہ اپنے پٹھو ہندوستا کی معیشت کو مضبوط وہ مضبوط کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
پاکستان کی سول سوسائٹی نے ہندوستان کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے پر اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا ہے۔پاکستان کی کابینہ کے اکثر ارکان نے ہندوستان کو پسنددیدہ ملک قرار دینے کے کابینہ کے فیصلے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے بلکہ بعض پیپلز پارٹی کے ارکان بھی اس فیصلے پر برہمی کا اظہارکر چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو پسند دیدہ ترین ملک قرا ر دینے کی حکومت کو بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوز یشن اس فیصلے کو حکومت کے خلاف موثر کارڈ کے طور پر بھی استعمال کر سکتی ہے۔منظور وٹو جو موجودہ حکومت کے وزیر مملکت امور کشمیر ہیں کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے عسکری قیادت ناراض ہوسکتی ہے اور کشمیر کاذ کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ موجود ہے….خود بعض حکومتی ارکان بھی یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو اس قد ر سر پر بیٹھا لیاجائے کہ ہمارے مفادات مجروح ہو کر رہ جائیں۔
کشمیری قیادت بھی کابینہ کے اس فیصلے سے ناراض دکھائی دے رہی ہے۔اس ضمن میں مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنما سید علی گیلانی نے بھی ہنوستان کو پسند دیدہ ترین ملک قرار دینے کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ کی ڈکٹیشن پر ہندوستان کو پسند دیدہ ملک قرار دیا ہے۔ امریکہ آج کل ہندوستان کو اس علاقے کا مکھیا بنا کر شائد پاکستان اور چین کو نیچا دکھانے کوششوں میں لگا ہوا ہے۔جس کی بناء پر دوسری جانب حکومتی ذرائع اس بات کا اعترا ف کر رہے ہیں کہ ہندوستان کو پسند دیاہ ترین ملک قرار دلوانے میں امریکی قیادت بھی کلیدی کر دار ہے۔ اس وقت ہماری وزارت خارجہ اور وزارت تجارت دھول میں لٹھ چلانے میں مصروف ہیں ۔جس کے مابعد اثرات نہایت ہی مہلک ثابت ہوں گے۔لہٰذا ہندوستان سے معاملات کرتے وقت ہمیں جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خور شیدshabbir4khurshid@gmail.com