۔۔۔کٹھ پتلیاں ۔۔۔

Zardari

Zardari

پاکستان کے معروضی اور جغرافیائی حالات دنیا کے بہت سے دوسرے مما لک سے بالکل مختلف ہیں لہذا پاکستان کے نظامِ حکومت اور اندازِ حکمرانی کا دنیا کے دوسرے ممالک سے موازنہ کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ کوئی بھی نظام کسی بھی ملک کی ثقا فتی اور معاشرتی قدروں کے پیمانوں کے اندر رہ کر ہی عمل پذیر ہو سکتا ہے۔ دوسروں کی نقالی سے ترتیب دیا گیا نظام جلد یا بدیر زمین بوس ہو جاتا ہے اور قوم اس کے نتائج سے بہرہ ور نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ نظام قوم کی امنگوں اور آرزوئوں کا ترجمان نہیں ہوتا۔ رسم و رواج میلے ٹھیلے ، ثقافتی سرگرمیاں، عادات و اطوار، شعرو سخن،مشاغل اور مذہبی تہوار کسی بھی ملک کے عوام کے مزاج میں ایک خصوصی امتزاج پیدا کر کے ان کیلئے مخصوص اندازِ حکمرانی کی بنیادیں استوار کرتے ہیں لہذا ہر ملک اندازِ حکمرانی میں جداگانہ تشخص کا حامل قرار پاتا ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں شدت پسند مذہبی رحجانات ایک مضبوط عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہاں کے رہنے والے لوگ مذہب کے بارے میں بڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں لہذا مذہب کے نام پر ان کا استحصال کرنا بڑا آسان ہے اور مذہبی جماعتیں اکثرو بیشتر یہی کرتی رہتی ہیں اور گاہے بگاہے حکومت کے خلاف اس ہتھیار کا استعمال بڑی بے دردی سے کرتی ہیں ۔ پنجاب کے سابق گو رنر سلیمان تاثیر اس کی بڑی واضح مثال ہے کہ کس طرح مذہبی جذبات کو بھڑکا کر دن دھاڑے اس کا قتل کروایا گیا۔ جمہوری سفر میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی کی وجہ یہ نہیں کہ لوگ مذہب سے بے گانے ہو تے جا ر ہے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ امورِ سلطنت ا یسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہتے جو جدید علوم سے آراستہ نہ ہوں اور اپنے رجعت پسندانہ خیالات کی وجہ سے قوم کو جمود اور تعطل کا شکار بنا کر ان کی ترقی کی راہیں مسدود کر دیں ۔ مذہب کے نام پر سیاسی دوکان چمکانے والے گروہوں کو عوام اس وجہ سے بھی پسند یدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے افراد ان کی شخصی آزادیوں کو مذہب کے نام پر سلب کر کے انھیں غلامانہ سوچ کا خو گر بنا دیں گئے۔پاکستانی عوام کارزارِ سیاست میں عقل و دانش اور سیاسی بصیرت کے حامل افراد کو سرگرم ِ عمل دیکھنا چاہتے ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ مذہبی قیادتیں عوام کے مقرر کردہ معیار پر پوری نہیں اترتیں اور یوں انتخابات میں انھیں ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے ۔مذہبی جماعتوں میں شدت پسندی کا عنصر بھی عوام کو ان سے بد ظن کرنے کا باعث بنتا ہے کیونکہ لوگ معاشرے کی ترقی کیلئے برداشت اور رواداری کو جزوِ لاینفک سمجھتے ہیں جب کہ مذہبی جماعتوں کی اکثریت اس فلسفے پر یقین نہیں رکھتی۔ اپنی تنگ نظری کی وجہ سے وہ زمانے میں ہونے والی ایجادات کو بھی شک کی نظر سے دیکھتی ہے اور ان کے استعمال کے خلاف فتوے جاری کرتی رہتی ہے جسے عوام ترقی اور ارتقاء میں ایک رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔ دنیا میں رونما ہونے والے اہم واقعات کے بارے میں ان کے نقطہ نظر سے بھی عوام اختلافِ رائے رکھتے ہیں اور یوں سیاسی میدان میں مذہبی جماعتیں کسی بڑی کامیابی سے محر وم رہتی ہیں۔ مذہبی قیادتوں کو امورِ سلطنت سو نپنا اور ان کا احترام کر نا دو الگ الگ موضوعا ت ہیں۔ پا کستانی عوام علمائے کرام کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن امورِ سلطنت ان کے ہاتھ میں دینا مناسب خیال نہیں کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست کی مشکل اور بائونسی وکٹ پر کھیلنا شائد علمائے کرام کے بس کی بات نہیں ہے۔ مذہبی پیشوا ئیت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جاگیرداری، سرمایہ داری اور سرداری نظام بھی ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس نے پاکستان کے محروم طبقات کو اپنے خون آشام پنجوں میں جکڑ رکھا ہوا ہے۔ مذہبی پیشوا ئیت اکثرو بیشتر وڈیروں، جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور سرداروں کی معاونت کیلئے تیار رہتی ہے اور اس کا تحفظ بھی کرتی ہے۔ کیونکہ اس کے اپنے مفادات بھی اسی طبقے سے وا بستہ ہوتے ہیں ۔ اونچ نیچ کی دیواریں اور طبقاتی تقسیم پاکستانی معاشرے کی پہچان ہے۔ ذولفقار علی بھٹو نے اس خلیج کو پاٹنے کی بڑی سنجیدہ کوششیں کی تھیں لیکن اپنی بے پناہ کوششوں کے باوجود بھی ذولفقار علی بھٹو نسلی تفاخر کی اس خلیج کو مکمل طور پر نہ پاٹ نہ سکا جس نے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر اسے اندر سے بالکل کھوکھلا کر دیا ہے۔ معاشرہ ذولفقار علی بھٹو سے توقع کر رہا تھا کہ وہ اپنی طلسماتی شخصیت سے تفاخر کی دیواروں کو ملیا میٹ کر دیگا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ اسی اشرافیہ کے افراد اہم عہدوں پر فائز تھے لہذا اپنی تباہی کے پروانے پر وہ خود کیسے دستخط کر سکتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ ذولفقار علی بھٹو نے عوام کو شعور عطا کیا اپنے حقوق کا دراک عطا کیا اور جمہوری جدو جہد کا بڑا بے باک جذبہ عطا کیا لیکن نسلی امتیاز کی مضبوط دیواریں جس پر پاکستانی معاشرہ کھڑا ہے اسے وہ بھی مکمل طور پر ملیا میت نہ کر سکا کیونکہ یہ صدیوں کے قائم شدہ  معاشرے کی وہ سچائیاں ہیں جنھیں ایک ہی  جٹکے میں گرایا نہیں جا سکتا۔اس کیلئے ایک مسلسل جدو جہد اور آگہی کی ضرورت ہے جو عوام میں اس ا حساس کو جا گزین کر دے کہ پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ وہ نسلی امتیاز اور ناہمواری ہے جس نے اسکی ترقی کی ساری  راہوں کو مسدود کر رکھا ہے لہذا تفا خر کی ان دیواروں کا گرنا پاکستان کی ترقی،بقا اور استحکام کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان میں مارشل لائوں کے تسلسل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جا گیر داروں،سرمایہ داروں ،سرداروں، وڈیروں اور مذہبی پیشوائیت کا ایک مخصوص گروہ مارشل لاء کی حمائت میں ہمیشہ سر گرمِ عمل رہتا ہے اور یوں مارشل لاء کو و جہِ جواز عطا کر دیتا ہے۔ کبھی یہی گروہ نو ستاروں والے پرچم تلے مارشل لاء کو خوش آمدید کہتاہے اور کبھی یہ نئی نئی مسلم لیگیں تخلیق کر کے مارشل لاء کی گود میں عافیت تلاش کرتا ہے۔ مارشل لاء کی حمائت کا صرف ایک ہی مقصد ہو تا ہے اور وہ یہ کہ اقتدار کا ہما ہمیشہ انہی کے سر پر آ کر بیٹھے اور وہ اقتدار کی دیوی کے صبح و شام درشن کرتے رہیں۔ معاشرے کا سب سے مضبوط گروہ اور فعال طبقہ مارشل لائی نفاذ پر شاداں و فرحان ہو جا ئے تو معاشرے میں مارشل لاء کی مخالفت کا تصور کمزور پڑ جاتا ہے۔ اگر بات یہی پر رک جا ئے تو شائد پھر بھی قابلِ فہم ہو جا ئے لیکن یہاں پر تو جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے پر مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور شب خون مارنے والوں کو مسیحا اور نجات دھندہ کہہ کر سروں پر بٹھا لیا جاتا ہے اور مخالفین کا وہ حشر کیا جاتا ہے کہ انسانیت بھی پناہ مانگے۔ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں میں متذکرہ بالا اشرافیہ گروہ کا قبضہ ہے اور یہی وہ گروہ ہے جو کہ اسمبلیوں، بیو و کریسی اور میڈیا پر بھی قابض ہے لہذا معاشرے کے مضبوط گروہوں کے مارشل لائی نفاذ پر شاداں و فرحان ہو جانے سے مارشل لاء خود ہی معاشرے میں قابلِ قبول بن جاتا ہے ۔ ہر مارشل لاء کے بعد انہی گروہوں نے ہر فوجی حکومت کا ساتھ دے کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ مسلم لیگ،جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے پاکستان،جمعیت العلمائے اسلام اور دوسری مذہبی تنظیموں کے سرکردہ افراد جنرل ضیاا لحق کے دست و بازو تھے اور جنرل ضیا ا لحق کی کیبنٹ میں ایک سٹوڈنٹ لیڈر وفاقی وزیر امورِ نوجوانان بھی ہوا کرتا تھا جسے آجکل جمہوریت کا سمبل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔میری اس سے پنجاب یونیورسٹی سے آشنائی تھی لیکن اسکی سوچ اور میری سوچ میں ز مین و آسمان کا فرق تھا لہذا سوچ میں اختلاف کی وجہ سے میرے اس سے کبھی بھی خوشگوار تعلقات ا ستوارنہ ہو سکے۔
پاکستان کے انہی گروہوں نے ہمیشہ مارشل لائوں کو مضبوط کیا اور اس کیلئے شب و روز کام کیالیکن جب محسوس کیا کہ اب فوجی حکمران کی رخصتی کا وقت قریب آچکا ہے تو سب سے پہلے اسے چھوڑ کر نئے آقا کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور جمہوری قدروں کے احیا ء کا علم اٹھا کر لوگوں کو دھوکہ دینے کا نیا ڈ ھکوسلہ شروع کر دیتے ہیں ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے جنرل پرویز مشرف کے  مارشل لائی دور کو یاد کر لیجئے اور اپنے ذہن پر زور دے کر اس کے سارے چمچوں کو یاد کیجئے جو دن رات جنرل پرویز مشرف کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے لیکن آج اقتدار سے اس کی رخصتی کے بعد اس کا نام لینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔کوئی اس کے ریفر ینڈم کی حمائت کر رہا تھا اور کوئی ہر روز ایوانِ صدر میں حاضر ہو کر اپنی وفائوں کا یقین دلا رہا ہوتا تھا۔ آج کل مارشل لاء کے سائے میں پروان چڑھنے والے یہی سیاست دان بڑھ چڑھ کر جمہوریت کا ڈھڈورہ پیٹ رہے ہیں اور خود کو ایساپاک صاف اور اصول پرست انسان بنا کر پیش کر رہے ہیں کہ اصلی پارسائوں کی پارسائی بھی ان کے سامنے ڈھیر ہو جائے۔ان کے بلند بانگ دعووں کے سامنے کس میں مجال ہے کہ کھڑ ا ہو سکے۔ان کی جمہوری جدو جہد پاکستان کا فخر قرار پا رہی ہے اور وہ ایک نئے انقلاب کا علم تھام کر اپنی پاکدامنی کی ایسی تشہیر کر رہے ہیں کہ زمانے کی آنکھیں چندھیا رہی ہیں لیکن سچ تو یہی ہے کہ وہ ایک بے رحم ڈکٹیٹر کے حاشیہ بردار تھے، اس کے جھولی چک تھے اور اس کے حو اری تھے ۔ وہ بے وفائی کی ایک ایسی شرم ناک تصویر تھے کہ انھیں دیکھ کر گن آجائے لیکن کیا کیا جائے کہ آج کل وہ ایک دفعہ پھر انقلابی تحریک کا ہراول دستہ بنے ہوئے ہیں اور خفیہ ہاتھ انھیں ایک دفعہ پھر تھپکیاں دے رہے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں اور جس کے ساتھ ہم ہوتے ہیں سبھی اس کے ساتھ سب ہوتے ہیں لہذا تمھاری جیت یقینی ہے بس ثابت قدم بن کر کھڑے ہو جائو ۔ ہماری بیساکھیاں تمھارے اقتدارکی ساری رکاوٹوں کو دور کر دیں گی اور آنے والا اقتدار ہم نے تمھارے نام لکھ دیا ہے بس ہمارے سارے نمک حلایوں کو اپنے گرد جمع کر لو تا کہ ہمیں یقین ہو جائے کہ کٹھ پتلیوں کے تماشے کا کنٹرول ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے اور وہ ہمارے اشاروںپر ناچیں گی۔
تحریر :  طارق حسین بٹ (چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم یو اے ای)