افغان طالبان کو کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے

 Afghan Taliban

Afghan Taliban

تحریر : میر افسر امان

قرآن کی تعلیمات کے مطابق دنیا میں صرف دو ہی پارٹیاں ہیں۔ ایک حذب اللہ دوسری حزب لشیطان۔ اس وقت جو جہادی طالبان کے ساتھ ہیں وہ حذب اللہ میں شامل ہیں۔ جو جہادی طالبان کے خلاف ہیں وہ حذب الشیطان میں شامل ہیں۔طالبان کو کسی پر بھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔سوائے اللہ کے طالبان کا کوئی بھی ہمدرد نہیں۔طالبان کو افغانستان میں اپنی مکمل اورفتح یقینی بنانا چاہیے۔ہاں! فتح کے بعد حکومت سازی میںصرف اُن مجائد قوتوں کو ساتھ شامل کرنا چاہیے جنہوں نے روس کے خلاف تاریخی جہاد کر کے سفید ریچھ کو افغانستان سے نکالا تھا۔یہ طالبان کے ساتھ اقتدار کے اصل حق دار ہیں۔ پھر اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے طالبان نے اعلان کر رکھا ہے جو بھی اپنی غلطی تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دے گا اسکے لیے عام معافی ہے۔ اس لیے افغانیوں کو امریکا سے پناہ مانگنے کے اپنی ملک رہ کر اس عام معافی سے فاہدہ اُٹھانا چاہیے۔جس کی بھی افغانستان میں جتنی پوزیش ہے اتنا اسلامی امارت میں اس کے حصہ کا طالبان پہلے ہی اعلان کیے ہوئے ہیں۔

روس کی شکست کے بعد جہادی پارٹیوں میں بدگمانیاں پیدا کر آپس میں لڑا دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد اللہ کا کرنا کہ طالبان کا ظہور ہوا تھا۔طالبان نے پورے ملک میں ملا عمر کی کمان میںامن کے سفید جھنڈے لہراتے ہوئے افغانستان کی خانہ جنگی ختم کی ۔ اسلامی روایات کے مطابق سپریم کمانڈرملا عمر کو امیر المومنین تسلیم کرتے ہوئے ہوئے اسلامی امارت کی بنیاد رکھی تھی۔ جسے پاکستان ،سعودی عرب اور کویت نے تسلیم کیا۔ طالبان ملک میں امن و امان قائم کیا۔وار لارڈز سے اسلحہ واپس لیا۔ پوست کی کاشت ختم کی۔اپنے پڑو سی ملکوں سے اچھے تعلوقات قائم کیے۔بیرون ملک کہیں بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہوئے۔

اب پھر اسلام سے خوف زدہ دنیا بھرکے جگادری آپس میں مل بیٹھے ہیں۔کبھی روس میں میٹینگ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں طا لبان کی اسلامی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے؟ طالبان نے جواب دیا جب ہم نے امریکا سمیت ٤٠ ناٹو اتحادیوں کو شکست دی ہی ہے تو کیا کوئی اور حکومت بنائے گا۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق یقیناً فاتح طالبان ہی حکومت بنائیں گے۔ افغانستان ایک اسلامی ملک ہے اس میں اسلامی حکومت ہی قائم ہو گا۔ امریکا نے اسلامی امارت پر ہی باہر سے آکر قبضہ کیا تھا ۔ اب امریکا کی شکست کے بعد طالبان کی اسلامی امارت ہی قائم ہو گی۔شکست خودہ امریکا جو ٤٠ نیٹو اتحادی فوجوں کے ساتھ ٢٠ سال تک افغانستان کو تورا بورہ بنا کر بھی کامیاب نہ ہو سکا ۔ لہٰذا دنیا کو طالبان کی متوقع اسلامی امارت سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان نے ہی طالبان کو مذاکرات کے ٹیبل پر لا کر کویت دوحہ میں امریکا طالبان کامیاب مذاکرات کرائے۔ جس میںافغانستان میں طالبان کی اسلامی امارت کا قیام، قیدیوں کی رہائی اور امریکا کا مئی تک افغانستان سے مکمل انخلا اور فوجی اڈے ختم کرنا شامل تھا۔ طالبان نے معاہدے پر مکمل عمل کیا۔ اس دوران امریکی فوجیوں پر حملے نہیں کیے جس کو خود امریکا نے تسلیم کیا تھا۔ اب صرف اشرف غنی حکومت رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اسے چاہیے کہ امریکا کی طرح طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دے ۔ افغان عوام کواپنی مر ضی کے مطابق حکومت بنانے دے۔

امریکااب پھر پاکستان سے درخواست کر رہا ہے کہ طالبان کو طاقت کے ذریعے افغانستان پر قابض ہونے سے روکے۔واہ بھئی! کیا مقافات عمل ہے کہ جو خود ٤٠ اتحادی ناٹو فوجوں کے جدید اسلحہ کے زور پر طالبان کو شکست نہ دے سکا۔ اب وہ پھر پاکستان سے درخواست کر رہا ہے۔جنگ کا بین الاقوامی اصول ہے کہ جو فریق ایک دوسرے سے جنگ کر رہے ہوتے ہیں ایک فاتح ہوتا اور دوسرا مفتوح ہوتا ہے۔ فاتح ہی حکومت بناتا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ صلییوں نے ٤٠ نیٹو اتحادی فوجوں کے ساتھ ایک غریب اسلامی ملک افغانستان پر چڑھائی کر کے اس کی جائز اسلامی امارت کو ختم کیا۔ مسلمان طالبان نے اپنے ملک سے اتحادی فوجوں کو نکالنے کے لیے جنگ کی۔ اس تاریخی جنگ میں صلیبی شکست کھا گئے۔ جہادی طالبان فاتح ہوئے ۔ اب اشرف غنی کی امریکیبھارتی پٹھو حکومت مفتوح ہونے والی ہے۔ یہ تاریخی واقعہ ہے کہ دنیا میں سو(١٠٠) سال بعد جہاد کی برکت سے صلیبیوں نے مسلمانوں سے شکست کھائی ہے۔ چاہیے تو یہ ہے کہ مسلمان حکومتیں اس فتح کو اپنی فتح سمجھتیں ۔ مگر پوری مسلم دنیا کو یہود و نصارا نے مختلف چالوں کے ذریعے جس میںاقوام متحدہ، آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، فیٹیف کے ایک طرفہ قوانین سے قابو کیا ہوا ہے ۔ بلکہ خوف زدہ کیا ہوا ہے۔ اس عظیم فتح سے اسلامی دنیا کو دور رکھا ہوا ہے۔

دنیا طالبان کو اپنے تابع رکھنے کے لیے اقتدار میں شرکت کے لیے ناجائز دبائو ڈال رہے ہیں۔ ان کی اسکیم کے مطابق طالبان پہلے سے قائم اشرف غنی پٹھو حکومت میں شریک ہو جائیں۔ تاکہ غلبہ طاغوتیں طاقتوں کا ہی رہے۔ طالبان صرف کچھ حصہ پر اراضی ہو جائیں۔ ایسے کیسے ممکن ہے۔ طالبان کو ان کے اس ٹریپ میں نہیں آنا چاہیے۔ افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے ، اپنے امیر المومنین کو منتخب کریں اس کی سربراہی میں اپنی خود مختیار اسلامی امارت قائم کرنا چاہے جو طالبان کا قانونی حق ہے۔ ہاں جس کی افغانستان میں جتنی پوزیشن ہے اس کو اتنا شیئر ملنا چاہیے۔ اس کاطالبان پہلے ہی سے اعلان کر چکے ہیں۔دنیا کی کسی بھی طاقت کو طالبان کے جائز حق اے روکنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔ طالبان زخم کھانے کے بعد زیادہ سمجھدار ہو چکے ہیں۔ عورتوں کی آزادی، تعلیم کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، دنیا کے ملکوں کے سفارتی مشن کی حفاظت اور دیگر معاملات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ مغرب کے پرپیگنڈے کا توڑ کرنا طالبان کو آتا ہے۔ وہ پہلے بھی چھ سال کامیابی سے اسلامی امارت چلا چکے ہیں۔ اب بھی ان شاء اللہ اس سے بہتر چلانے کی پوزیشن میں ہیں۔ بھارت سمیت جو بھی افغانستان کی ترقی میں شامل ہونا چاہتا ہے شامل ہو جائے ۔ چین کی پالیسی کی طرح ہر ملک کو اپنی عوام کی مرضی کی حکومت بنانے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے دوستی کرنا چاہیے ۔ ایک دوسرے کے ملک میں دہشت گردی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ طالبان چاہتے ہیں۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان