افغانستان سے نکلنے کا واحد راستہ کابل ایئرپورٹ

Kabul Airport

Kabul Airport

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) مختلف افغان علاقوں میں طالبان عسکریت پسندوں کی مسلح کارروائیوں نے فرار ہونے کے تقریبا تمام راستے مسدود کر دیے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اب صرف کابل کا ہوائی اڈہ ہی بچا ہے، جہاں سے ملک سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں لوگ ملک سے نکلنے کے لیے ٹکٹ لینے کی کوششوں میں ہیں اور ایئرپورٹ پر لوگوں کا ہجوم بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ کابل ایئر پورٹ کے ٹرمینل کی پارکنگ میں ٹکٹ فروخت کرنے کے عارضی کاؤنٹر بنا دیے گئے ہیں۔ لوگ بے چینی کے ساتھ ملک چھوڑنے کے لیے ٹکٹوں کی تلاش میں ہیں۔

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق کابل کے شہریوں میں خوف و ہراس کی کیفیت پھیل چکی ہے اور زیادہ سے زیادہ سامان اٹھا کر ہوائی اڈے پر پہنچ رہے ہیں تا کہ اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ سامان لے جا سکیں۔ ان کے ساتھ سامان میں ٹیلی وژن اور یادگاری اشیاء بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ لوگوں کی قطاریں طویل ہیں اور کاؤنٹر پر ٹکٹ پراسسنگ کا عمل بہت ہی سست ہے۔

صرف ‘خوش قسمت‘ لوگ ہی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ان مسافروں کو شدید بے صبری اور خطرہ لاحق ہے اور انہیں اپنی منزل کا بھی پتہ نہیں۔ ایسے کئی مسافر کسی بھی سمت کی ٹکٹ خریدنے کی کوشش میں ہیں۔ ٹکٹ حاصل کرنے والے گلوگیر آوازوں اور آنکھوں میں آنسووں کے ساتھ اپنے رشتہ داروں کو الوداع کہتے دیکھے گئے کیونکہ شہر میں پھیلی ہنگامی صورت حال میں زندگی کی یقین دہانی کون دے سکتا ہے؟

افغان دارالحکومت کا ہوائی اڈہ شہر کے شمال مشرق میں ہے۔ اس کا ایک رن وے ہے۔ عام دنوں میں یہ اتنا پرہجوم دکھائی نہیں دیتا تھا لیک موجودہ صورت حال میں پریشان حال افغان شہری وہاں جمع ہیں۔ افغانستان کی ہوائی کمپنیوں آریانا اور کام ایئر کی اگلے ہفتے تک کی تمام نشستیں خریدی جا چکی ہیں۔

مسافروں کو کورونا ٹیسٹ کی منفی رپورٹ بھی درکار ہے۔ اس باعث کابل کے پرائیویٹ کلینکس اور اسپتالوں میں بھی لوگوں کی بھیڑ موجود ہے۔ ملک چھوڑنے والوں میں امیر کبیر لوگ اور بڑے کاروبار رکھنے والے بھی شامل ہیں۔

خلیجی ریاست قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبد الرحمٰن الثانی نے دارالحکومت دوحہ میں موجود طالبان کے دفتر میں ملا عبدالغنی برادر وفد سے ملاقات کی ہے۔ برادر دوحہ میں طالبان کے دفتر کے سربراہ ہیں۔ قطری وزیر خارجہ نے انہیں کہا ہے کہ طالبان جنگ بندی کو فوری طور تسلیم کریں، مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور قبضے کی راہ کو ترک کریں۔

یہ امر اہم ہے کہ طالبان کے وفد سے جمعرات بارہ اگست کو امریکا، چین، پاکستان، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندوں نے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔