افغانستان میں جنگی جرائم: آئی سی سی نے امریکا کو تفتیشی عمل سے کیوں علیحدہ کر دیا؟

Karim Khan

Karim Khan

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے افغانستان میں جنگی جرائم کی تفتیش طالبان اور داعش تک محدود رکھنے کے اقدام کا خیر مقدم تو کیا جارہا ہے لیکن دوسری طرف امریکا کو تحقیقات سے الگ رکھنے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کارکنان بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے اس فیصلے کی پذیرائی کر رہے ہیں جس کے تحت افغانستان میں ممکنہ جنگی جرائم کے سلسلے میں طالبان اور داعش کے خلاف تفتیش کی جائے گی۔ لیکن آئی سی سی کے پاس وسائل کی کمی کی وجہ سے امریکا کو اس تفتیشی کارروائی میں شامل نہ کرنے پر بھرپور نکتہ چینی کی جارہی ہے۔

بین الاقوامی فیڈریشن فار ہیومن رائٹس نے آئی سی سی کے پراسیکیوٹر سے مطالبہ کیا ہے کہ اب جنگی جرائم کے حوالے سے جاری تفتیشی کارروائی کو بغیر کسی تاخیر کے جاری رکھا جائے۔ اس کے علاوہ امریکی سول لبرٹی یونین کے ڈائریکٹر جمیل ڈِکوار ایسے تین متاثرین کی نمائندگی کر رہے ہیں، جو امریکی حکومت کو افغانستان میں اُن پر تشدد اور حراست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے اس فیصلے کو واپس تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کیتھرین گیلگھر گوانتانامو میں زیر حراست رکھے گئے بعض متاثرین کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ طاقتور ملکوں کو، کئی سالوں تک مختلف براعظموں میں کیے گئے جرائم سے معافی نہیں دی جاسکتی۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے نئے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے رواں ہفتے پیر ستائیس ستمبر کو کہا کہ وہ افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات دوبارہ شروع کرانا چاہتے ہیں لیکن اس میں امریکی فوجیوں کی تفتیش کی بجائے صرف طالبان اور اسلامک اسٹیٹ (خراسان) پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان اور داعش (خراسان) کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا فیصلہ افغانستان میں حالیہ پیش رفت کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ چونکہ طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھال لیا ہے ایسے میں ان کی حکومت کے تحت جنگی جرائم کی کسی آزادانہ تحقیقات کی توقع نہیں ہے۔

انسانی حقوق کے علمبردار تنظیم ہیومن رائٹس واچ سے منسلک پیٹریسیا گروسمان نے آئی سی سی کے نئے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کے اس فیصلے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ دنیا بین الاقوامی فوجداری عدالت کو انصاف کے دفاع کے لیے ایک اہم ادارہ کے طور پر دیکھتی ہے لیکن اس اقدام سے اس کی ساکھ اثراندار ہوسکتی ہے۔

روم میں امریکی یونیورسٹی آف افغانستان میں قانون کے اسسٹنٹ پرافیسر ہارون رحیمی نے گروسمان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی سی میں وسائل کی کمی کے سبب لیے گئے اس اقدام کی وجہ سے عدالت کی اخلاقی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑے ہوجائیں گے۔

رحیمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان کی طرف سے مسلم عسکریت پسندوں پر توجہ مرکوز کرنا طالبان اور دیگر گروہوں کے لیے ایک بڑی فتح ہوگی۔ کیونکہ وہ اس کارروائی کو اپنے بیانیے کے لیے استعمال کریں گے، جس کے مطابق ”ہم ان [امریکا اور مغربی ممالک] کے خلاف ہیں۔‘‘

دریں اثناء وکلا اور متاثرین کی نمائندگی کرنے والی تنظیمیں کریم خان سے ملاقات کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ ان کے سامنے اپنے موقف کو پیش کیا جاسکے۔