افسانچہ : سردی اور بھوک

Cold Weather

Cold Weather

تحریر: وسیم رضا
سانپ کی مانند بل کھاتی کچی سڑک مین روڈ سے نکلتی اور پرانے پارک کے اندر داخل ہو کر کہیں گم ہوجاتی تھی۔ میں آج ادھر بے خیالی میں آ نکلا تھا، حالا نکہ مجھے اس طرف کوئی خاص کام نہیں تھا، ابھی پارک کچھ دور ہی تھا کہ میرے چلنے کی رفتار ایک غیر متوقع منظر کودیکھ کر پہلے کم ہوئی پھر سست اور چند لمحوں بعد میں یہ سوچ کر رک گیا اس طرف جاوں یا واپس پلٹ جاوں! دن خاصا چمکیلا تھا، ہلکی ہلکی خنکی تھی، لیکن ہوا نہ چلنے کی وجہ سے سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی، میں نے پارک کی جانب بڑھنا شروع کردیا ۔ اولڈ ہوم سے متصل یہ ویران سا پارک ان معمروں کے نام سے منسوب تھا جنہیں ان کے بچے غیر ضروری سمجھ کر ادھر ڈال گئے تھے تاکہ وہ اپنی زندگی کے بقیہ ایام دوسروں کو پریشان کئے بغیر خاموشی سے تنہائی میں گزار لیں۔

اب میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پارک کے بالکل نزدیک اس منظر کے عین سامنے آ ن پہنچا تھا جس نے کچھ دیر پہلے مجھے ایک لمحہ کے لئے چونکا دیا تھا۔ میرے سامنے جو منظر تھا اس میں ایک عارضٰی رسی دو درختوں کے درمیان بندھی نظر آ رہی تھی ، ر جس پر لٹکے کچھ گیلے کپڑے سوکھنے کے لئے ادھر ادھر مچل رہے تھے، رسی پر ایک بنیان ، ایک شرٹ اور ایک پینٹ تھی، جرابیں نیچے زمین پر پڑی تھیں ، شائد سوکھ کر نیچے گر تھیں، تنی ہوئی رسی کے عین نیچے ایک بینچ رکھا تھا جس پر ایک شخص ٹیک لگائے خیالوں میں گم اکڑوں بیٹھا تھا ، جس انداز میں وہ بیٹھا تھا ، صاف محسوس ہو رہا تھا کہ سخت ا ضطراب میں ہے، بنچ کی لکڑی کی طرح سختی سے کسی ہوئی کمر، بے حس و حرکت جسم اور پتھرائی ہوئی آنکھیں ، دنیا و مافیا سے بے خبر وہ شخص کسی کرب میں تھا اور مسلسل کچھ سو چے جا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر کوئی رونق نہیں تھی، اکا دکا لوگ آجا رہے تھے لیکن کوئی بھی اس کی طرف دیکھ تک نہیں رہا تھا۔ عجیب اجنبی ما حو ل تھا ، یوں لگ رہا تھا کسی کو اس کی پرواہ نہیں اور نہ ہی اسے۔

میں اس شخص کو ا چھی طر ح جانتا تھا ، ا ٹلی کے اس شمالی شہر میں آئے ہوئے اسے پندرہ سے زیادہ سال ہو گئے تھے ، میرے شہر کا تھا ، ہم نے کئی مل کر کھا پیا ، اس کی ایک چھوٹی سی بیٹی تھی ، اکثر اس کی باتیں کرتا ، اس کا ایک ہی خواب تھا کسی طرح اپنی ننھی سی بیٹی اور بیوی کو اپنے پاس بلا لے، کچھ سالوں بعد جب ا ٹلی پر معاشی بحران کے ساے گہرے ہونے لگے اور ہزاروں کی طرح اس کی نوکری بھی جاتی رہی تو اس کی وہ واحد خواہش بھی دم توڑ گئی ، اب وہ کبھی اپنی ننھی کلی کا زکر نہ کرتا ، بس خاموش رہتا اور دوسروں کی کامیابیوں اور منصوبوں کے قصے چپ چاپ سنتا رہتا ۔ آج کافی عرصے بعد اچانک نظر آیا تو بے چارگی اور محرومیوں نے اس کو سر سے پاوں تک جکڑ رکھا تھا ۔ مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔

Desire

Desire

لاوارث بوڑھوں کے اس ویران پارک میں اب میرا اس کا صرف دو ہاتھوں کا فاصلہ رہ گیا تھا ، چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتا تھا ، میں عین اس کے عقب میں کھڑا تھا ، اس کو کندھوں سے پکڑ کر ہلانے ، اس کے پاس بیٹھنے، اس کا دکھ سننے اور اس سے یہ پوچھنے کہ اس کی معصوم بیٹی اب کیسی ہے؟ اور اس نے صبح سے کچھ کھا یا پیا بھی ہے یا نہیں ؟ بے اختیار میرا ہاتھ پینٹ کی پچھلی جیب میں پڑے پرس کی طرف چلا گیا ، میں سوچنے لگا کہ خدا کتنا عظیم ہے مجھے بھوکا نہیں سلاتا ، سونے کے لئے چھت بھی دی ہے، میری چیب میں میری ضررت سے کچھ زیا دہ پیسے بھی رہتے ہیں ، میرا خیال ان ہم ملکیوں کی طرف بھی گیا جو اٹلی میں رہتے ہیں ، لیکن ہر وقت روتے رہتے ہیں ، جس کا کھاتے ہیں اسی کو کوستے ہیں ، پھر میرا خیال ان کی طرف بھی گیا جنہوں نے یہاں آکر سماج کاروں اور سیاستدانوں کابہروپ بھر رکھا ہے جو عکسی سیشنوں کی خاطر تو ہزاروں لٹا دیتے ہیں لیکن کبھی سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ کس دن کون کون ان کے ارد گرد بھوکا ہی سو گیا۔

میرے اندر کا انسان ایک لمحے کے لئے جاگ گیا تھا ، میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہم اپنی ضرورت کا نہیں تو کم از کم وہ جو اپنی ضرورت زیادہ ہے وہ ہی دوسروں کو دینا شروع کریں تو کئی بھوکے پیٹ بھر سکتے ہیں ، کئی بچھڑوں ہووں کا ملاپ ہو سکتا ہے، چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے کتنے ہی خواب طلوع ہو سکتے ہیں ! میرا ہاتھ اب میرے پرس کے قریب پہنچ چکا تھا جس میں میری ضرورت سے زیادہ پیسے موجود تھے، مگرجونہی میں نے اپنے پرس کو باہر نکالنے کے لئے اپنی ہتھیلی میں جکڑ کر بھینچا مجھے ایک کرنٹ سا لگا ، یہ کرنٹ اتنا شدید تھا کہ اس نے میرے اندر کے جاگے ہوئے انسان کو جلا کو بھسم کر ڈالا ، خیالات پر ایک بجلی سی کوندی اور میں ہڑ بڑا پیچھے ہٹ گیا ، پھر دبے پاوں اس احتیاط سے پیچھے ہٹنے لگا کہیں پتھرائی ہوئی آنکھوں والے اس شخص کے اوسان بحال نہ ہوجائیں جو اپنے گھر کے آ نگن میں اس کا انتطار کر تی ہوئی ننھی سی گڑیا کے لئے کئی سال پہلے خوشیاں خریدنے آ یا تھا اور اب دیار غیر میں تن تنہا سردی اور بھوک سے نبر د آزما تھا ، میں پیچھے ہٹتے ہٹتے تیزی سے پلٹا اور ادھر ہی کو چلنا شروع کردیا جدھر سے آیا تھا، چند لمحوں بعد میں نے مڑ کر دیکھا تو اس کے اور میرے درمیان فاصلہ بہت بڑھ چکا تھا، میں نے اطمنان کا سانس لیا اور اپنی مزید رفتار تیز کر دی۔

Wasim Raza

Wasim Raza

تحریر: وسیم رضا