اقبال کا فن شاعری اور فلسفہء خودی

Allama Muhammad Iqbal

Allama Muhammad Iqbal

تحریر : مبارک علی شمسی

نو 9 نومبر کا دن شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی پیدائش کا دن ھے آپ نو مسلم کشمیری پنڈتوں کے متوسط گھرانے میں 1877ء میںپیدا ھوئے۔ دیندار اور نیک کردار والدین کے زیر سایہ پروان چڑھے مولوی میر حسن جیسے بزرگ والد کی تعلیم و تربیت سے فیض یاب ھوئے امتیاز کے ساتھ ابتدائی اور پھر ثانوی تعلیم کے مراحل طے کیئے ،لاھور سے فلسفہ میں ایم اے کر کے وہیں کچھ عرصہ پروفیسری اختیار کی اور بالآخر میں اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان سدھارا، وھاں تین سال رہ کر لندن سے بیرسٹری اور میونخ (جرمنی) سے پی ایچ ڈی فلسفہ ء کی ڈگریاں حاصل کر کے وطن واپس آگئے کچھ عرصہ وکالت اور سیاست کی وادیوں کی سیر بھی کی لیکن پھر ان سب کو چھوڑ کر ھمہ تن اس ملی شاعری کی طرف پورا پورا دھیان دینا شروع کر دیا جس کا آغاز (25,30) سال قبل ھو چکا تھااور آخرکار 1938میںاسی کارآمد مشغلے میں مصروف رہ کر سفر آخرت اختیار کیا، اردو کے تین مجموعے بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور متعدد فارسی مجموعے جن میں اسرارخودی، رموزبے خودی، پیام مشرق، زبورعجم، جاویدنامہ، مسافر، اقوام مشرق اور ارمغان حجاز سر فہرست ہیں اور دو ایک فلسفیانہ تصانیف نثر جن میں خطبات کا ایک مجموعہ بھی شامل ھے یادگار چھوڑے۔ان کا ایک شعر ملاحظہ ھو وہ کچھ یوں گویا ھوتے ہیں کہ

ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ھے

بڑی مشکل سے ھوتا ھے چمن میں دیدہ ور پیدا

اقبال کا یہ شعر خود ان کی ذات پر بڑا صادق آتا ھے تقریباً دو صدیوں تک ذلت، گمراہی اور غلامی کے گڑہوں میں رہنے کے بعد ایسے حالات پیدا ھوئے جنہوں نے اقبال جیسے فلسفی اور نقطہ سنج شاعر کو جنم دیا جس نے نہ صرف قوم کو خواب سے بیدار کا بلکہ دنیا کو قرآنی اصولوں کیمطابق پیغام راستی و امن دیا، غالب کے بعد اقبال وہ پہلے شاعر ہیں جن کی حکیمانہ ژرف نگاہی نے ذرہ سے لے کر آفتاب تک ہر چھپی اورکھلی حقیقت کا جائزہ لیا انہوں نے دل کی گہرائیوں میں اتر کراس کے گوشے گوشے کو ٹٹولا اور اس کا کوئی راز ان کی عقابی نگاہ سے اوجھل نہ رہ سکا ان کا طائر فکر زمین سے اڑا اور بیک پرواز آسمانوں کی اس نورانی خلوت گاہ تک جا پہنچاجس کے قریب فرشتوں کو بھی پر مارنے کی مجال نہیں حقیقت تو یہ ھے کہ اقبال نے شاعری کے زمین و آسمان ہی بدل دیئے اقبال کے زمانے تک ” شاعری واہ” اور زیادہ سے زیادہ” آہ” تھی لیکن اقبال نے شعر میں زندگی سمو کر فکروخیال کا ایک ایسا نادر اسلوب پیش کیا ھے جس کی نظیر دنیا کی شاعری میں مشکل ہی ملے گی دنیا کا دستور ھے کہ چراغ سے چراغ جلتا ھے جانے والے آنے والوں کیلئے مثالیں اور نشان چھوڑ جاتے ہیں ہر ماضی اپنے مستقبل کا نقش اول ہوتا ھے اقبال بھی دوسرے شاعروں سے متاثر ھوالیکن تاثر وانفعال کی ان جھلکیوں کے باوجود ان کے سوچنے محسوس کرنے اورظاہر کرنے کا طریقہ سب سے جدا ھے وہ اپنی جگہ ایک منفرد اور جداگانہ خیال کے بانی ہیں ان کے افکار میں تنوع تصورات میں جدت اور فلسفہ میں گہرائی ھے وہ فکروخیال اور یقین و مشاھدہ کی ان فضاؤں میں پرواز کرتے ہیں جہاں خود شعر و ادب کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔

اقبال ایک بالغ النظر شاعر ہیں وہ مشرق و مغرب کا سنگم ہیں اقبال کی زندگی بڑی حد تک انقلابوں اور ہنگاموں سے خالی ایک سیدھی سادھی داستان ھے اقبال کی شاعری کئی ارتقائی منزلوں سے گزری ھے ان کا پہلا دور وہ دور ھے جب انہوں نے مشق کی خاطر غزل گوئی شروع کی اور فن و زبان سیکھنے کیلئے اپنے وقت کے سب سے مشہوراور مقبول شاعر داغ دھلوی کی شاگردی اختیار کی یہ دور صرف رسمی شاعری کاھے اور اس میں اگرچہ انہوں نے بہت سادہ اور شوخ غزلیں کہیں مگر یہ نہ تو ان کی افتادطبع کے موافق تھیں اور ان میں انہوں نے غیر معمولی کارنامہ دکھایا لہٰذہ جلد ہی نظم گوئی کی طرف مائل ھوگئے اس زمانہ میں وہ وطن پرست اور قدرتی مناظر کے دلدادہ نظر آتے ہیں اس کے علاوہ تصوف میں بھی ان کی  دلچسپی بہت بڑھی ھوئی ھے کیونکہ ان کا ذوق انہیں اپنے والد محترم سے وراثت میں ملا تھا فنی اعتبار سے بھی یہ نظمیں بڑی خوشنما آراستہ اور رواں ہیں اس کی شاعری کا دوسرا دور یورپ میں آپ کے زمانہ قیام کی یادگار ھے اس زمانے میں انہوں نے بہت کم نظمیں کہیں لیکن ایک بات یہاں نئی ملتی ھے وہ یہ کہ یورپ کی مادی ترقیوں سے مرعوب ھونے کی بجائے اقبال نے پورپی تہذیب میں آنیوالے زوال کے آثار محسوس کر لیئے اور اس بارے میں پورے زور اور اعتماد کے ساتھ ان الفاظ میں پیش گوئی بھی کر دی کہ

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِنازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

یورپ سے واپس آتے ہی اقبال کا ذہن اور فکر پختہ ھوتے نظر آتے ہیں اور وہ راز حقیقت تک پہنچتے ہیں اور اس عزم اور فیصلے کے ساتھ واپس آ رہے ہیں کہ ملت اسلامیہ کواپنی شاعری اور افکار کے ذریعے عمل پر آمادہ کریں گے س کا جمود توڑیں گے اور اس کو وہ پیغام دیں گے جس میں اس کی نجات ھے اور یہی خدمت وہ مرتے دم تک ادا کرتے رہے اوریہی ان کی شاعری کا تیسرا دور ھے ۔اقبال کی پیامبرانہ شاعری کا خلاصہ خودی میں مضمر ھے اس لفظ کے معنی اقبال نے اپنے آپ کو پہچاننا بتائے ہیں ظاہری انسان کو صیح صیح طور پر اندازہ ہو جائے کہ وہ اس کائنات میں کیا مقام رکھتا ھے اور اسے دنیا میں کس غرض سے بھیجا گیا ھے ان کے خیال میں انسان نے اپنا صیح مقام اور حیثیت پہچاننے میں ھمیشہ ٹھوکریں کھائی ہیں اور اسی لیئے اسے امن و سکون میسر نہ آسکا اگرانسان خودی سے واقف ھو جائے تو اس کی تمام مشکلات حل ھو جائیں۔

اقبال کے نزدیک خودی یہ ھے کہ انسان اس دنیا میں خداوندتعالیٰ کا بندہ اور نائب بن کررہے اور ساری کائنات کو برابر تسخیر کرتا چلا جائے اقبال کی اس آخری دور کی نظمیں اگرچہ خالص شاعرانہ رنگینیوں اور مرصع کاریوں سے روز بروز عاری ھوتی چلی گئیں ہیں تاھم ان میں حکیمانہ وقار، داعی انا جوش و جلال اور دردمندانہ تڑپ بڑھتی چلی گئی ھے فلسفے کی دقیق باریکیاں نہائیت پر کشش شاعرانہ انداز میں بیان کرنا کبھی تند سیلاب کا شور اور کبھی پہاڑی وندی کا ترنم پیدا کرنا وقت کے سیاسی و سماجی اخلاقی مسائل پر بصیرت افروز تبصرے کرنا اور اس کے باوجود شاعرانہ حسن برقرار رکھنا اس عہد کی وہ خصوصیات ہیں کہ وہ کم از کم اردو کے کسی اور شاعر کے ھاں نہیں ملتیں۔ بحروں اور قافیوں کا مناسب انتخاب لفظوں اور آوازوں کا موزوں استعمال مثالوں، منظرنگاریوں، تلمیحوں اور دوسری ضروری باتوں کی کثرت اور تنوع کی تمام خصوصیات مل کر اقبال کی شاعری کو نہ صرف ملی بلکہ آفاقی شاعری بنا کر زندگی جاوید کے مقام تک پہنچا دیتی ہیں۔

Syed Mubarak Ali Shamsi

Syed Mubarak Ali Shamsi

تحریر : مبارک علی شمسی