فتح مبارک، غزہ تو ہمیشہ زندہ رہے گا

Hamas

Hamas

حماس او ر اسرائیل کے مابین طویل مدتی امن معاہدہ طے پا گیا۔معاہدے میں بیشتر شرائط وہ منظور ہوئی ہیں جو حماس نے پیش کی تھیں۔اسرائیل نے غزہ کا آٹھ سال سے جاری سخت ترین محاصرہ بھی نرم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ غزہ میں ائر پورٹ کی تعمیر نو کے حوالے سے ایک ماہ بعد مذاکرات ہونگے۔معاہدے کے بعد غزہ میں لٹے پٹے فلسطینی فتح کی خوشی منا رہے ہیںاور تل ابیب میں موت کا سناٹا ہے۔

آخر اس کی کیا وجہ بنی کہ امریکہ سمیت دنیا کی ساری عالمی طاقتوں کی کھلی مدد و حمایت اوربے پناہ ظلم و ستم ڈھانے کے باوجود اسرائیل ہی نامراد ٹھہرا ہے۔اس کا سوال غزہ کے کونے کونے،ذرے ذرے سے ملے گا۔ یہ غزہ کا الشفا ہسپتال ہے۔ اس کے ایک بستر پر 11 سالہ زخمی بچی سر تا پائوں پٹیوں میں لپٹی پڑی ہے جو اٹھ نہیں سکتی۔ اس بچی کا نام یاسمین البکری ہے۔ 6 اگست کو عالمی نشریاتی ادارے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے یاسمین کہنے لگی۔ ”میں گھر میں امی کے ساتھ ناشتے کی تیاری میں ان کی مدد کر رہی تھی کہ اچانک ایک دھماکہ ہوا، پھر مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا؟ مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو یہاں ہسپتال کے بستر پر پٹیوں میں لپٹا پایا۔ اب مجھے پتہ چلا ہے کہ اسرائیل نے ہمارے گھر پر بم گرایا تھا جس سے ہمارا سب کچھ تباہ ہو گیا۔ میری امی، میری چھ سالہ بہن، میرا چھ ماہ کا بھائی، چچا اور ان کا بیٹاسب وہیں شہید ہو گئے۔

رائٹرز نے لکھا ہے کہ غزہ میں اس وقت 4 لاکھ ایسے ہی بچے اسرائیلی بمباری کا سامنا کررہے ہیں اور یاسمین ہیں کہ سارے خاندان کی شہادت کے بعد تنہا رہنے کے باوجود بھی روتی نہیں ہیں بلکہ کہتی ہیں کہ ”وہ سب تو جنت میں چلے گے اور میں بس صبر کروں گی۔ 6 اگست کوعالمی نشریاتی ادارے بی بی سی ورلڈ کی نمائندہ اور لاگیرن نے غزہ سے ایک رپورٹ مرتب کی جس کا عنوان تھا: ”حماس کی حمایت میں کمی یا اضافہ”۔ خاتون صحافی نے حماس کے ایک مجاہد کمانڈر محمد شعبان کا تذکرہ کرتے ہوئے اس جواں سال مجاہد کی ان کے 2 معصوم بچوں کے ہمراہ تصویریں دکھائیں اور بتایا کہ محمد شعبان اسرائیلی بمباری میں شہید ہو چکے ہیں لیکن ان کے والد ابو احمد جو کہ خود بھی حماس کے ایک مجاہد کمانڈر تھے، انہیں اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے۔ وہ اپنے باقی بیٹوں کو بھی راہ جہاد میں قربان کرنے پر تیار ہیں۔

بتایا گیا کہ اسرائیل کا مقصد حماس کی عسکری طاقت کو کمزور کرنا اور عام فلسطینیوں کو اس سے متنفر کرنا ہے لیکن کیا وہ اس مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں؟ یا پھر ان شہادتوں اور تباہی نے حماس کی حمایت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ خاتون صحافی کہتی ہیں کہ (3 روزہ) جنگ بندی کے دوران غزہ کی مارکیٹ میں ہمیں حماس کی صرف حمایت ہی ملی۔ پھر ایک نوجوان کا انٹرویو سنایا گیا جو کہہ رہا تھا کہ ”ہمیں حماس پر فخر ہے وہ ہمیں اسرائیلی حملوں سے بچاتی ہے”۔ اس کے بعد 16 جولائی کے روز اسرائیل کے بموں کا نشانہ بننے والے ایک ہی خاندان کے ان چار بچوں کا منظر دکھایا گیا ہے جو غزہ کے ساحل پر فٹ بال کھیلتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔

بتایا گیا کہ اس واقعہ کے بعد ان بچوں کے لواحقین نے بھی حماس کی حمایت شروع کر دی ہے۔ پھر شہید ہونے والے 11 سالہ محمد کی فیملی کا انٹرویو سنایا گیا جہاں شہید محمد کی بہن عمارہ بیٹھی ہوئی تھیں اور کہہ رہی تھی کہ وہ بھی جنت میں اپنے بھائی محمد کے پاس جانا چاہتی ہیں۔ ساتھ بیٹھی محمد کی والدہ کہہ رہی تھیں کہ پہلے تو وہ حماس کی حامی نہیں تھیں لیکن اب وہ ان کی فتح کیلئے دعائیں کرتی ہیں۔

BBC World

BBC World

بی بی سی ورلڈ نے ہی جمعہ 8 اگست کو ایک اور رپورٹ نشر کی جس میں معصوم فلسطینی بچوں کو کلمہ طیبہ والا پرچم لپیٹے جہاد کے زمزمے بلند کرتے اور فتح کے نشان بناتے دکھایا گیا۔ یہاں موجود ایک باپردہ خاتون بی بی سی کی نمائندہ خاتون سے اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہی تھیں کہ ”میں اپنے اکلوتے بیٹے اور 4 بیٹیوں اور گھر بار سمیت سب کچھ اسرائیل کیخلاف مزاحمت میں قربان کرنے پر تیار ہوں۔

21 اگست کو اسرائیل کی بمباری میں حماس کے 3 کمانڈر جام شہادت نوش کر گئے… ان شہداء میں سے ایک ابو شمالہ بھی تھے جن کی 11 سالہ بیٹی شہادت کے فوری بعد صحافیوں سے کہہ رہی تھی ”میں صبر کروں گی کیونکہ میرے ابو جنت میں چلے گئے ہیں، ہم سب بھی ان کے پاس جانا چاہتے ہیں لیکن ہم اسرائیل کے سامنے جھک نہیں سکتے۔

یہ کیسے فلسطینی ہیں کہ اسرائیل کے ہاتھوں سر کٹانے کو تو تیار ہیں جھکانے کو نہیں۔ ذرا تصور تو کیجئے۔ 24 اگست کو اسرائیل نے 13 منزلہ رہائشی عمارت پر بمباری کر کے اسے ملبے کا ڈھیر بنایا تو وہاں رہنے والے سبھی خاندان دیگر پانچ لاکھ تباہ حال فلسطینیوں کے ساتھ اب کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ ان کی رات کیسے گزرتی ہو گی، کھاتے کہاں سے ہوں گے، سوتے کہاں ہوں گے…؟ انسانی ضروریات کہاں پوری کرتے ہوں گے؟ لیکن وہ پھر بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔

آج کا لہو میں ڈوبا فلسطین تاریخ عالم کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ اس علاقہ کا نام ہے جو اردن، لبنان اور مصر کے درمیان تھا اور آج بھی ہے۔ یہاں پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے یہودیوں کو لا کر آباد کرنا شروع کیا۔ اس آباد کاری میں اصل تیزی دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد آئی جب ساری دنیا سے یہودیوں کو یہاں لا کر مسلح کیا گیا۔1947ء میں اقوام متحدہ معرض وجود میں آئی تو اس نے سب سے پہلا اور عظیم کارنامہ یہی انجام دیا کہ فلسطین کو ظالمانہ طور پر تقسیم کر دیا اور چند لاکھ یہودیوں کو فلسطین کا 55 فیصد حصہ غیر قانونی طور پر دے دیا گیا۔ اس کے بعد دنیا بھر کے یہودی یہاں آتے اور فلسطینیوں کو نکال باہر کر کے ان کی جگہ پر قابض ہوتے رہے۔ مئی 1948ء میں غاصب یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا جسے روس اور امریکہ نے فوراً تسلیم کر لیا۔

1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے فلسطین کے مرکز بیت المقدس سمیت مزید علاقوں پر قبضہ کر کے فلسطین کا وجود ہی ہڑپ کر لیا۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک خصوصاً اردن، مصر، لبنان، شام اور خطے کے دیگر پڑوسی ممالک میں 55 لاکھ سے زائد فلسطینی ہجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس وقت دنیا کی سب سے بڑی بے گھر اور مہاجر قوم فلسطینی ہی ہیں جبکہ غرب اردن اور غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی آبادی سوا چالیس لاکھ ہے۔ فلسطین اس وقت کوئی عالمی سطح پر تسلیم شدہ آزاد ملک نہیں۔ اقوام متحدہ میں اسے محض مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ 1993ء کے اسحاق رابن اور یاسر عرفات کے مابین اوسلو معاہدے کے تحت بھی اسے محض اندرونی نیم خود مختار ریاست تسلیم کیا گیا تھا۔ اس کے آج کے صدر محمود عباس جبکہ وزیراعظم سلام فیاض ہیں۔

اپریل 2014ء میں وزیراعظم کا انتخاب حماس اور الفتح نے متفقہ طور پر کیا جس کے بعد ہی اسرائیل نے انہیں حالیہ جارحیت کے ذریعے ”سبق” سکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ آج اس اسرائیل کو دنیا کی ایک طاقتور ترین اور بدمعاش ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کے سامنے ڈٹنے والے صرف اور صرف غزہ کے معصوم اور نہتے عورتیں اور بچے یا پھر حماس ہے جس نے ساری دنیا کی طاقت رکھنے والے حمایتیوں کی مدد کے باوجود اسرائیل کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔

غزہ تو زندہ رہے گا… جنت کی خوشی تجھے کبھی مرنے نہ دے گی اور تجھے مارنے والے پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپ کر بھی نہ بچ سکیں گے اور یہی پتھر اور درخت بھی ان کے قتل میں حصہ لیں گے کیونکہ اگر جنت کا وعدہ سچا ہے تو پیارے نبی محمد کریمۖ کا فرمان بھی ویسا ہی سچا ہے۔

 Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر:علی عمران شاہین