آرامکو تنصیبات پر حملوں کا ہدف عالمی معیشت کو نشانہ بنانا تھا: امریکا

Stephen Manochen

Stephen Manochen

نیویارک (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزیر خزانہ اسٹیفن منوچن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چند ماہ قبل سعودی عرب کی پٹرولیم کمپنی ‘آرامکو’ کی تنصیبات پرایران کی طرف سے کیے گئے حملوں کا ہدف عالمی معیشت کو تباہ کرنا تھا۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ہفتے کے روز ایک بیان میں امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ سعودی عرب میں تعینات کی گئی امریکی فوج صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران نے ضروری شرائط پوری کردیں تو اس پرعاید کی گئی تمام اقتصادی پابندیاں اٹھا دی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پرحملوں میں ایران کے سوا اور کوئی ملوث نہیں۔ امریکا ان حملوں میں تہران کی تردیدکے باوجود ایران ہی کو قصور وار ٹھہراتا ہے۔

خبر رساں ادارے رائیٹرز نے چند روز قبل ایک تحقیقاتی رپورٹ سعودی عرب کے خلاف ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی زیرقیادت ایرانی سازش کی نئی تفصیلات کا پردہ چاک کیا تھا۔

نیوز ایجنسی نے بتایا کہ ڈرون طیاروں کے ذریعہ سعودی ‘آرامکو’ میں تیل کی تنصیبات پر حملے سے چار ماہ قبل ایرانی سیکیورٹی اہلکار تہران کے سخت سیکیورٹی والے کمپائوںڈ میں جمع ہوئے۔ ان میں پاسداران انقلاب کے سینیر کمانڈر بھی شامل تھے۔ ان میں وہ عہدیدار بھی شامل تھے جو میزائلوں کے اپ گریڈ کرنے اور خفیہ آپریشن کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔

مئی کےمہینے میں ہونے والے اس اجلاس کا اصل ایجنڈا یہ تھا کہ امریکا کو تاریخی جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے اور ایران کے خلاف معاشی پابندیوں کی طرف لوٹنے کے جرم کی سزا کیسے دی جائے۔ کیونکہ یہ دو ایسے اقدامات تھے جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔

پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی کی موجودگی میں ہونے والے اجلاس میں ملک کی سینیر عسکری کمان موجود تھی۔

نیوز ایجنسی نے چار مختلف ذرائع کے حوالے سے ایرانی سپریم لیڈر کا بیان نقل کیا جس میں انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی تلواریں دکھائیں اور انہیں سبق سکھائیں۔” اس موقع پر ایرانی لیڈروں نے امریکی فوجی اڈوں سمیت اعلی اہمیت والے اہداف پر حملہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

تاہم اس اجلاس اس پہلو پرغور کیا گیا کہ ایران ایران کے خلاف کوئی ایسا اقدام کرے سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی امریکا کو منہ توڑ جواب بھی مل جائے اور اس کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی بھی نی ہو۔ اورنہ امریکا کا سخت جوابی رد عمل ایران کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی تجویز پر اس کے بعد ایرانی پاسداران انقلاب کے چار دوسرے اجلاسوں میں بھی غور کیا گیا۔

سعودی وزارت دفاع کی طرف سے دکھائی جانے والی تصاویر میں آرامکو حملے میں ایران کے ملوث ہونے کا ثبوت موجود ہے۔

رپورٹ میں تین ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 14 ستمبر کو سعودی عرب میں تیل کی تینصیبات پرحملوں کے لیے منصوبہ ایرانی پاسداران انقلاب کی طرف سے تیار کیا گیا اور اس پرعمل درآمد کی منظوری سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایرانی رہ نما علی خامنہ ای نے اس شرط پر اس آپریشن پر اتفاق کیا ہے کہ ایرانی افواج کسی بھی شہری یا امریکی کو زخمی کرنے سے گریز کرے گی۔

رائیٹرز ایرانی قیادت کی جانب سے ان واقعات کی تصدیق نہیں کی گئی کیونکہ پاسداران انقلاب کے ترجمان نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔

نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایران کے مشن کے ترجمان علی رضا میر یوسفی نے اس الزام کو مسترد کردیا تھا کہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ایران حملوں میں ایران ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے حملوں میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس طرح کے آپریشن پر تبادلہ خیال کے لیے سینیر سیکیورٹی حکام کی میٹنگ نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی خامنہ ای نے کسی بھی حملے کا اختیار نہیں دیا تھا۔