محبت خان اور غلام مند کی کہانی

Firing

Firing

محبت خان علاقہ غیر کا رہنے والا تھا اس کی دو بیویوں سے چھ بیٹیاں ہو چکی تھیں مگر وہ ابھی تک بیٹے سے محروم تھا۔ بیٹے کی چاہ میں تیسری شادی اس نے زالمے گل سے کی اور اس بار آخر اللہ نے اس کی سُن ہی لی محبت خان بیٹے کا باپ بن کر پُھولا نہ سمایا پہاڑ فائرنگ کی آوازوں سے گونج اٹھے اس نے بیٹے کا نام شیردل خان رکھا پہاڑوں میں رہنے والوں کے دل بھی چٹانوں کی طرح سخت ہوتے ہی مگر محبت خان کا دل بیٹے کے ساتھ ساتھ دھڑکتا تھا اس کے ٹرک چلتے تھے جس کے لیے اسے ادھر ادھر جانا پڑتا لیکن کاروبار زندگی کے ساتھ وہ بیٹے کی تربیت سے بھی غافل نہ تھا جیسے کہ سب جانتے ہیں کہ ہتھیار ان علاقوں کے لوگوں کا زیور ہوتے ہیں اسی طرح دشمنوں میں بھی یہ خود کفیل ہوتے ہیں۔ اس کے بھی کئی دشمن تھے اور وہ پہاڑوں میں گھرے ایک چشمے کے کنارے بیٹھ کر شیر دل کو ان کی بابت بتایا کرتا یہیں پر وہ اس کو بندوق چلانا سکھاتا۔ پانچ سال کی عمر میں شیر دل بلا کا نشانے باز تھا، دو سال اور سرک گئے ایک روز دونوں باپ بیٹا اپنی مخصوص جگہ بیٹھے باتوں میں مصروف تھے کہ ایک شخص چھپتا چھپاتا وہاں آ پہنچا سنگین خان ایک جرم کر کے بھاگا تھا دشمن اس کے پیچھے تھے وہ محبت خان سے پناہ کا طالب ہوا۔

خاصی ردّو کد کے بعد محبت خان اسکو پناہ دینے پر تیار ہو گیا۔ وہ اس کو اپنے حجرے میں لے گیا کھانا کھلایا سنگین خان کو بھی اطمنان ہو گیا کہ اب دشمن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کہ ان علاقوں کی روایت کے مطابق ایک بار جو انکی پناہ میں آ جائے پھر یہ اس کے لیئے کچھ بھی کر گذرتے ہیں۔
تقریباً ڈھائی ماہ گذر چکے تھے اب سنگین خان بھی قدرے بے فکر ہو چکا تھا وہ محبت خان کے کاروبار پر جانے کے بعد شیردل کو ساتھ لے کر چشمے کی طرف نکل جاتا جو اس سے کافی مانوس ہو چکا تھا اس کے باپ نے اسے سختی سے تاکید کی تھی کہ وہ مہمان کے متعلق کسی کو نہیں بتائے گا۔ ایک دن اسکا ٹرک پکڑا گیا جس کی وجہ سے اسے شہر جانا پڑا جہاں پورا ڈیڈھ ہفتہ لگ گیا واپسی پر اسے یہ اندوہناک خبر ملی سنگین خان کو کسی نے قتل کر دیا۔ محبت خان کو غم و غصے نے گھیر لیا وہ اپنے علاقے کی روایات سے بھی واقف تھا جہاں کسی کو پناہ دینے کے بعد دشمن کے حوالے کرنے یا مخبری کرنے کا تصور تک نہیں ۔اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر دشمن اس تک کیسے پہنچا کئی دن اسی سوچ بچار میں گذر گئے لیکن کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔ شیر دل اب کبھی کبھار اکیلا بھی چشمے کی طرف نکل جاتا تھا۔ محبت خان غم وغصے میں کئی روز تو بیٹے سے غافل رہا لیکن پھر اس کو خیال آیا تو وہ چشمے کی طرف چل پڑا۔

شیر دل اس کو دور ہی سے نظر آ گیا وہ بہت انہماک سے کسی چیز کو دیکھ رہا تھا اتنا کہ اسے باپ کے آنے کی خبر نہ ہوئی جب باپ سر پر پہنچا تو اس نے وہ چیز چھپا لی لیکن اس کا خوف باپ سے چھپا نہ رہ سکا محبت خان نے اس کی چھپائی چیز برامد کر لی وہ ایک خوب صورت چمکدار ڈائل والی مردانہ گھڑی تھی محبت خان کا دل خوف سے سکڑا کیونکہ وہ بات کی تہہ تک پہنچ چکا تھا ۔ شیر دل مجھے بتائو یہ تمہیں کس نے دی؟ نہیں بابا نہیں میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا خوفزدہ بچہ گھبرا کر بولا صرف میرے سوال کا جواب دو محبت خان نے بندوق سیدھی کی بابا میں نے اسے بالکل نہیں بتایا تھا مہمان کے بارے میں۔ تمہارے جانے کے بعد وہ خود ہی میرے پاس آیا تھا اس نے کہا تھا میں تمہارے بابا کا دوست ہوں کل تم اپنے مہمان کو یہاں ضرور لانا میں نے اسے ایک بات بتانی ہے۔ اسے میرا مت بتانا کیونکہ تمہارا باپ اسے باہر نکلنے سے منع کر گیا ہو گا تم میرا اتنا سا کام کر دو تو یہ گھڑی میں تمہیں دے دونگا۔ بابا کی جان تم نے روایت تو توڑ دی نہ؟ اب مجھے اپنا اصول نبھانا ہے فائر ہوا اور پہاڑوں نے ایک دلخراش منظر دیکھا محبت خان نے ننھے شیر دل کی لاش اٹھا کر کندھے پہ ڈالی اور گھڑی چشمے کی طرف اچھال دی۔

Rahim Yar Khan

Rahim Yar Khan

غلام مند ضلع رحیم یارخان کے ایک گائوں کا باشندہ تھا (اصل نام غلام محمد ہے دیہاتی علاقوں میں اکثر محمد کو مند بولا جاتا ہے ) جو کہ نہایت غلط بات ہے لیکن ہمارے اتنے گمبھیر مسائل کے درمیان انھیں بہت چھوٹی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی تھی غلام مند کی، اس کے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں ایک غریب کھیت مزدور کے گھر کے جو حالات ہو سکتے ہیں وہی اس کے بھی تھے۔ محنت مشقت سے وہ دور بھاگتا تھا کھیت مزدوری مجبوری کے تحت کرتا جب فاقوں کی نوبت آ جاتی دوستیاں لگانے اور باتیں کرنے کا البتہ بہت شوقین تھا یہ بھی ایک فیکٹ ہے کہ اکثر ایسے مرد ہی بچوں کے ڈھیر لگاتے ہیں جو روزی کمانے سے جی چرائیں۔ بحرحال رو پیٹ کے اس کا گھر بھی چل رہا تھا ایک روز اس کا ایک دوست ملنے آیا جس کا سالا سعودیہ میں تھا جن کا کوئی باہر چلا جائے وہ پاکستان میں ایسے پھرتے ہیں جیسے ان کا وہ رشتہ دار وہاں وائسرائے لگ گیا ہو حالانکہ وہاں کے مزدوروں کے حالات سنیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس نے اسے کہا مجھے کسی طرح باہر بجھوادو اس کے دوست نے کہا باہر بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور تیرے جیسا ہڈحرام وہاں کرے گا کیا ؟نہ تعلیم نہ ہاتھ میں کوئی ہنر ہاں البتہ ایک کام ہو سکتا ہے آجکل ایک شیخ آیا ہوا ہے اس کو اونٹ ریس کے لیئے چھوٹے بچوں کی ضرورت ہے تُو اپنے دو بیٹے باہر بھیج دے پھر دیکھ تیرے پاس ریال ہی ریال ہونگے۔غلام مند کی تو باچھیں کھل گئیں گھر بیٹھے ریال ملنے کا تصور ہی جانفزا تھا اس نے نہ بیوی کو بتایا نہ ہی کچھ اور سوچا دوست کو زبان دے دی کہ تُو جب چاہے میرے دو بیٹے لے جا۔ شیخ کا ایک کارندہ اس دوست کے رابطے میں تھا اور وہ پہلے ہی بچوں کی ایک کھیپ تیار کر چکا تھا اسنے اس کے بچوں کے لیئے بھی آمادگی ظاہر کردی سو ایک ہفتے بعد غلام مند بیوی کے سر ہو گیا کہ بچوں کو نہلا دھلا کے کپڑے پہنا دے ان کو بڑی اچھی نوکری مل گئی ہے بس اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔

بیوی نے پہلے تو واویلا کیا پھر سبز باغ دکھانے پر وہ بھی تیار ہو گئی دو روز کے اندر بچے دوسرے بچوں کے ساتھ لانچ کے زریعے سمگل ہو گئے ان دنوں یہ کاروبار عروج پر تھا یہ سوچے بغیر کہ پانچ سے نو سال تک کی عمر کے یہ بچے آخر کس کام آتے ہیں ادھر یہ ہوتا کہ بچے کو اونٹ کے اوپر بٹھا کے باندھ دیا جاتا جب اونٹ دوڑتا تو معصوم بچہ ڈر کے مارے رونے لگتا اور وہ جتنا زیادہ چیختا اونٹ اتنا ہی تیز دوڑتا (ایک ایسی ہی اونٹ ریس میں ایک مغربی بندے کے تھرو یہ صورت حال دنیا پر آشکار ہوئی اور انصار برنی صاحب نے پاکستانی بچوں کی سمگلنگ کا یہ دھندہ رکوایا اللہ جانے اب بھی یہ دھندہ جاری ہے کہ ختم ہو گیا) غلام مند نے سال بھر تو خوب ریال بٹورے کبھی کبھی اس کی بیوی بچوں کو یاد کر کے روتی کہتی تجھے کیڑے پڑیں مویا تو نے میرے زری زری سے (چھوٹے چھوٹے ) بچے کہاں ملکوں میں بھیج دیے ہیں جانے وہ ٹکر مانی بھی کھاتے ہونگے کہ نہیں مگر غلام مند اسے گھرک کر چُپ کرا دیتا لیکن زیادہ عرصہ اسے یہ کمائی راس بہ آئی جب بچے اسے واپس ملے تو زخموں سے چُور تھے اور ذہنی حالت بھی خراب۔

یہ پاکستان کے دو کنبوں کی کہانیاں ہیں جو میں نے اس لیئے رقم کی ہیں کہ ہمیں اس بات کو سمجھنے میں آسانی رہے جو میں کہنا چاہتی ہوں۔ مجھ پہ اکثر لوگوں کا اعتراض ہے کہ میں بات کو ڈھانپ کے کہنے کا ہنر نہیں رکھتی ،، یعنی کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے ” ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس کو کمال سمجھتے ہوں مگر میں اس سے متفق نہیں ۔ ہم لوگ ہر غلط کام کرتے ہیں اور پھر اس پر اصرار بھی کرتے ہیں کہ اس کو صحیح مانا جائے سب سے پہلی بات تو میں یہ کہونگی کہ آج کی نسل ہم سے بہت مختلف ہے بہت ایڈوانس ہے اس کو سمجھانا اور مطمعن کرنا از حد مشکل ہے کیوں اور کیسے؟ جب ہم یہ کہتے تھے تو ہمیں کوئی بھی جواب دے کر ٹرخا دیا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے کافی میلز آتی ہیں میرے پاس اور اکثر کمینٹس میں بھی آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا لکھا ہوتا ہے کہ یہ لکھنے والے ہمیں کیا سمجھانا چاہتے ہیں؟انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیا ہم اتنے بے خبر ہیں کہ انکی گو مگو کی کیفیت میں لکھی گئی باتوں کو سمجھنے بیٹھیں گے؟

اس لیئے اکثر لکھاریوں کو منافقت کا طعنہ بھی ملتا ہے کہ ایک دن کسی کے حق میں دوسرے دن اسی کی مخالفت میں لکھ کر اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں۔ ان دس بارہ سالوں میں دنیا بدل گئی ہے آخر ہم مان کیوں نہیں لیتے۔اس نسل کا رہنما مسجد کا امام نہیں یونیورسٹی کا پروفیسر ہے۔ اب ان کو ہمارے لکھے کالم نہیں پڑھنے ایک ٹی وی چینل کا اینکر انھیں زیادہ اٹریکٹ کرتا ہے لہذا جو کہنا ہے صاف صاف کہو۔ میرا بیٹا جہاں جاتا گاڑی بھر کے کتابیں لے جاتا تھا اب وہ ” آئی پیڈ ” پر دنیا جہان کی چیزیں پڑھتا ہے۔

Drone Attack

Drone Attack

جب خودکش حملوں کا ذکر ہوتا ہے لوگ اس کو لال مسجد اور ڈرون حملوں کا ردّعمل کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں یقینا ان میں کچھ لوگ ایسے ہونگے مگر یہ سب وہ نہیں ہیں ۔مغرب نے ہمیشہ مہم جوئی کے لیئے مسلم دنیا کو منتخب کیا کیونکہ ان کے اپنے لوگوں میں ان کے لیئے کوئی کشش نہیں ان کے منصوبے بھی پانچ سال کے لیئے نہیں سو سال کے لیئے ہوتے ہیں،پہلے سو سال انہوں نے برصغیر پر حکمرانی کی تو ایسے ہی بیس بنائی تھی اپنی عورتوں کو بادشاہوں کے حرموں میں داخل کیا ان میں یہ احساس بیدار کیا کہ مسلماں اپنی عورتوں کو گٹھڑیوں کی طرح باندھ کے رکھتے ہیں جبکہ خود عیاشیاں کرتے ہیں ،یوں کرتے کرتے انہوں نے مسلمان بادشاہوں کے ادوار کا خاتمہ کیا یقینا ان میں مسلمانوں کی اپنی بے اعتدالیاں بھی شامل ہوتی ہیں لیکن کسی بھی چیزکو دوام حاصل نہیں نہ ہی ارتقائی عمل کو روکا جا سکتا ہے ضیاا لحق جیسا مرد مومن بھی ڈش انٹینا اور وی سی آر کو نہیں روک سکا تھا ، برصغیر میں بسنے والی رنگ برنگی قومیں اپنی رنگ برنگی بولیوں کے ساتھ خصوصی طور پر مغرب کا ہدف ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سیٹلائٹ کے اس دور میں وہ لوگ ان سب کاروائیوں سے غافل ہوں جو ہمارے قبائلی علاقوں میں چل رہی تھیں ۔اور نیو ورلڈ آرڈر بھی تو رائج کرنا تھا۔ایٹمی دھماکوں کی سزا بھی دینی تھی ۔اس وقت کوئی بھی حکمران ہوتا اس نے وہی کرنا تھا جو امریکہ نے چاہا،بس بدنامی آرمی کے حصے میں آئی ۔ان کاقصور تھا وانا جیسے علاقے میں سڑکیں اور اسکول بنانا۔ میں نے محبت خان والی کہانی شروع میں اسی لیئے بیان کی ہے ۔کہ محبت خان پورے قبائلی علاقے کی نمائندگی کرتا ہے یعنی جو شخص روایات کی خاطر اپنا اکلوتا بیٹا قربان کر دیتا ہے ۔

ان علاقوں میں جب سڑکیں اور سکول بننے لگے تو ان میں بے چینی پھیلنے لگی مجھے ایک انجینئر کی میل آئی اس نے لکھا تھا کہ میں ایک سول انجینئر ہوں اور میں اس ٹیم میں شامل تھا جو ”وانا اور وزیرستان ” میں سڑکیں بناتے رہے ہیں میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے بتایا کہ آرمی لوگوں کے اغوا یا قتل میں ملوث نہیں یہ محض ایک پروپیگنڈہ ہے ۔ وہ لوگ نہیں چاہتے کہ یہاں اسکول بنیں ، بلکہ وہ سڑکیں بھی نہیں بنوانا چاہتے وہ ان علاقوں کو دشوار گذار ہی رہنے دینا چاہتے ہیں۔ وہ نہ اپنی روایات چھوڑنا چاہتے ہیں اور نہ وہاں کسی اور کا عمل دخل پسند کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ چونکہ آرمی کے خلاف طاقت استعمال نہیں کر سکتے اس لیئے وہ ان کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں تا کہ کسی طرح یہ کام رک جائیں۔یہاں میں ایک اپنی آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی بات بتاتی ہوں ہم 2010 میں ایبٹ آباد کے راستے کاغان ناران گئے ( اس سے پہلے ہم مالا کنڈ کے راستے سوات جایا کرتے تھے ) سوات میں ٹینشن کے بعد ظاہر ہے وہ راستہ مخدوش ہو گیا ۔

ایبٹ آباد میں جگہ جگہ پٹھانوں کی دکانیں کھلی تھیں اتفاق کی بات ہے ان میں مجھے وہ سواتی لڑکا نظر آیا جس سے ہم نے سوات میں کڑھائی والی گرم شالیں خریدی تھیں۔میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ باجی ادھر کا حالات خراب ہونے پر ہم ادھر آ گیا ہے یہاں ہمارا اپنا آرمی ہے ہمیں یہاں کوئی ڈر نہیں۔۔۔ جب ہم کاغان ناران پہنچے تو کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ شورش ذدہ علاقے ہیں جگہ جگہ ہوٹل کھلے ہوئے تھے اور ہر ہوٹل نے اپنی پانچ پانچ چھ چھ جیپیں رکھی ہوئی تھیں جو سیاحوں کو جھیل سیف الملوک تک لے جاتی تھیں جیپوں کے ذریعے سارا راستہ آسان تھا البتہ گلیشئر کے قریب چند فرلانگ کا راستہ پل صراط سے کم نہیں تھا میں نے جیپ کے ڈرئیور سے پوچھا جہاں سارا راستہ اتنا اچھا بنا لیا ہے وہاں اتنے سے ٹوٹے کو کیوں موت کا راستہ بنایا ہوا ہے وہ ہنس کے بولا باجی اگر یہ ٹوٹا آسان ہو گیا تو سارے لوگ اپنی پرائیویٹ گاڑیوں پہ جھیل پہنچ جایا کریں گے ۔ ہمارا جیپ کون لے گا ادھر ہم چار لاکھ میں جیپ بنواتا ہے دو سیزن لگا کے جیپ کے پیسے پورے کر لیتا ہے کیا ہماری روزی پہ لات مارے گا ۔؟تو کچھ باتیں اس لیئے بھی پھیلائی جاتی ہیںکہبہت سے جھوٹوں سے بہت سے لوگوں کی روزی بندھی ہوتی ہے۔

مغرب نے ان علاقوں کو تسخیر تو کرنا ہی تھا کہ مہم جوئی ان کی فطرت ہے ۔لیکن پہلا قدم اٹھانا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے جو بد نصیبی سے مشرف کے حصے میں آ گیا فرض کریں نائن الیون امریکہ نے خود کروایا تو کیا وہ پاگل تھا جو اتنے بڑے ڈرامے کے بعد چپ کر کے بیٹھ جاتا ؟ اگر واقعی ”القائدہ ” نے یہ نائن الیون کیا تو کیا مشرف کی جگہ کوئی بھی ہوتا وہ امریکہ کے سامنے اڑ جاتا ؟

انہی باتوں پہ مجھے غصہ آتا ہے کہ جس سوال کا جواب نہیں کسی کے پاس اس کو مشرف کا جرم کیوں بناتے ہو ؟آج وہ سارے کام ہو رہے ہیں جو مشرف دور میں ادھورے رہ گئے تھے ،نصاب بدلے حساب بدلے ،جینے کے اسباب بدلے ،کیا نہیں ہوا ؟ ہاں غلام مند کی کہانی کا تعلق بھی بتاتی ہوں اب وہ چھوٹے لڑکے ہمارے مزارعوں میں شامل ہیں، اور جوانی میں ہی ایک ٹانگ میں لنگ کا شکار ہے اور دوسرا ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ۔بظاہر انھیں کوئی بیماری نہیں ہوئی لیکن خوف اور اذیت نے ان کو یہ تحفے دیئے ہیں۔تو پیارے پاکستانیو! آج کا سب سے بڑا سوال روزی کا ہے یہ مسلئہ حل ہو جائے تو بہت سے جھوٹ خود بخود دم توڑ دیں گے ۔پاکستان میں سب جھوٹوں کی روزی لگی ہے سچ تو یہ ہے کہ ناکارہ سے ناکارہ انسان بھی یہاں آ کر دانشور بن جاتا ہے ۔جن کو کوئی کام نہیں آتا وہ سیاستدان بن جاتے ہیں کیونکہ لڑوانا اور حکومت کرنا سیاست کی بنیادی تھیوری ہے لہذا یہ کام بڑے احسن طریقے سے چل رہا ہے ۔ سو اس کو چلتے رہنا چاہیے ہو سکتا ہے انہی کھوٹے سکوں میں سے کوئی کام کا نکل آئے ۔!

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی