ہاناؤ حملے کے بعد مسلمانوں کی سکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ

Security

Security

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن حکومت نے ہاناؤ حملے کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کی سکیورٹی بہتر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہاناؤ میں دائیں بازو کے ایک انتہا پسند کی فائرنگ سے نو افراد مارے گئے تھے۔

جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اکیس فروری کو اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ ہاناؤ میں کیے گئے حملے میں نسلی تعصب کے پس منظر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس سے پہلوتہی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت میں جرمنی کو دائیں بازو کے شدید داخلی خطرے کا سامنا ہے۔ زیہوفر کے مطابق جرمن جمہوریت بھی اس صورت حال میں خطرے سے دوچار ہو کر رہ گئی ہے اور اس تناظر میں سارے ملک کو بڑے پیمانے پر مناسب سکیورٹی اقدامات کی ضرورت ہے۔

پریس کانفرنس میں جرمن وزیر داخلہ نے بتایا کہ حساس مقامات اور اداروں کی سکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس تناظر میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کی جائے گی۔ اسی طرح ریلوے اسٹیشنوں پر بھی پولیس کی گشت کے ساتھ ساتھ تعیناتی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ہاناؤ جیسے حملے یا اس کے جواب میں انتقامی ردعمل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

زیہوفر نے واضح کیا کہ اگلے دنوں میں کئی اہم تقریبات اور تہوار منائے جانے والے ہیں اور اس باعث سلامتی کی بھاری ذمہ داری ملکی سکیورٹی اہلکاروں اور اداروں پر عائد ہو گئی ہے۔ جرمن وزیر داخلہ کا اشارہ کارنیوال کی تقریبات اور مختلف شہروں میں نکالے جانے والے جلوس ہیں۔ انہوں نے صوبائی وزرائے داخلہ کے ساتھ منظم سکیورٹی پلاننگ کرنے کا بھی بتایا۔ صوبائی پولیس کو وفاقی پولیس کا ہمہ وقت تعاون فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب جرمن حکومت کی انضمام کی کمشنر آنیٹ ویڈمان ماؤز نے ایسنر براڈکاسٹنگ ہاؤس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی کے ساتھ ساتھ ملک میں اسلاموفوبیا کے انسداد کی بھی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ماؤز نے واضح کیا کہ دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد جاری ہے لیکن اب اس میں مزید شدت لانا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ مسلمان اور یہودی یا غیر ملکی پس منظر کے حامل لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے اور وہ حملے کے خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔

آنیٹ ویڈمان ماؤز نے مزید کہا کہ ایسے افراد یا گروپوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کرنا اہم ہو چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یہ تجویز دے چکی ہیں کہ ماہرین کا کمیشن (ایکسپرٹ کمیشن) قائم کیا جائے اور سارے ملک میں اس کمیشن کے رابطے کے مقامات ہونے چاہییں تا کہ کسی فرد واحد کو کسی بھی وقت خطرہ محسوس ہو تو وہ کمیشن کے مقامی دفتر سے مدد طلب کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر احتیاطی تدابیر اور انتظامات کے پائیدار نتائج حاصل ہوتے ہیں اور کسی اور حملے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔

کولون شہر میں قائم ترک اسلامک یونین برائے مذہبی امور کے ترجمان ذکریا التگ نے انضمام کی کمشنر کی جانب سے ماہرین کے کمیشن کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے اسے ایک مناسب اقدام قرار دیا ہے۔ التگ نے کہا کہ جرمن معاشرے میں اسلامو فوبیا کی کیفیت کو تسلیم کرنا ضروری ہو گیا ہے اور اسے جرمن اسلام کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ ذکریا التگ کا کہنا ہے کہ مجوزہ ایکسپرٹ کمیشن میں مساجد کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے اور مسلم عبادت گاہوں کے تحفظ کے انتظامات کو مزید بہتر بنانا بھی اہم ہے۔