ہوشیار ہو جاؤ…. آپریشن ہونے والا ہے…..!

PPP

PPP

اَمر واقعہ یہ ہے کہ کراچی کی بدامنی کی طویل تاریخ اور پس منظر ہے، جو سر دست اِس وقت موضوع گفتگو نہیں، لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے کراچی کی سیاست میں بڑے فیصلے کرنے کی بجائے ایسے فیصلے کیے جو محض اقتدار بچانے کے لیے ضروری تھے، اُس نے سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی بدامنی کیس کے فیصلہ پر بھی خاموشی اختیار کرکے ایک طرح سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا تھا، جس کی وجہ سے عدالت عظمیٰ نئی حکومت کے بارے میں بھی یہ تبصرہ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ گزشتہ دو برس سے جاری بدامنی کی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، جبکہ نئی حکومت اپنے گزشتہ تین ماہ کے طرز عمل سے یہ جواز پیش کرنے میں نا کام رہی کہ وہ کراچی کی بدامنی کی ذمے دار نہیں ہے، اب کراچی کی صورتحال پر موجودہ جمہوری حکومت کچھ سنجیدگی سے اقدامات کرتی نظر آتی ہے، وزیرعظم نواز شریف باہمی مشاورت سے کچھ اہم فیصلے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ کابینہ کا خصوصی اجلاس کراچی طلب کیا گیا۔

اِس سے قبل وزیراعظم نے کراچی میں مختلف جماعتوں کے سیاسی رہنمائوں کو کراچی میں ہونے والے ممکنہ اقدامات پر بھی اعتماد میں لیا، اِس خصوصی کابینہ کے اجلاس میں متحدہ کی نمائندگی کیلئے ڈاکٹر فاروق ستار کو بھی بلایا کیا گیا تھا، لیکن حکومت کو یہ فیصلہ اِس لیے واپس لینا پڑا کہ متحدہ کو کابینہ کے خصوصی اجلاس میں دعوت کے بعد باقی تمام جماعتوں نے اُس کی شرکت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے جو فیصلہ کیا ہے اُس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ جبکہ معاملہ یہ ہے کہ کراچی کے عوام کئی عشروں سے مشکلات اور عذاب میں گھرے ہوئے کسی معجزے کی امید لگائے بیٹھے ہیں، حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں، کسی کو کچھ اندازہ نہیں، البتہ پورے ملک اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا شہر امن کا گہوارہ بن جائے، اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ وزارت داخلہ اور حکومت سندھ نے مل کر ٹارگٹڈ آپریشن کے لئے ایک لائحہ عمل تو مرتب کیا ہے، مگر اِس لائحہ عمل میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ اور اِسے کیسے عملی جامعہ پہنایا جائے گا؟ یہ نکتہ قابل غور ہے، اِس حوالے سے سب سے پہلا سوال ذہن میں جو ابھرتا ہے۔

Supreme Court

Supreme Court

وہ یہ کہ کیا واقعی آپریشن کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے اور کیا حکومت کا یہ آپریشن اِس صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکے گا جبکہ پہلے سے ہی یہ شور مچایا دیا گیا ہے کہ ”ہوشیار ہو جاؤ……کراچی میں آپریشن ہونے والا ہے۔” اگر اِس کے باوجود یہ آپریشن کامیاب ہو جاتا ہے تو شاید یہ دنیا کا پہلا آپریشن ہوگا …..!جس میں پیشگی اطلاع کے بعد کامیابی نصیب ہوگی۔ جبکہ زمینی حقائق کہتے ہیں کہ اِس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لئے مملکت کے تمام اداروں کو چومکھی لڑائی لڑنا ہوگی، آپ کو یاد ہوگا کہ گذشتہ دنوں متحدہ نے کراچی میں فوج کو طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اُس کے اِس مطالبہ پر ایک عمومی اتفاق رائے یہ سامنے آیا ہے کہ کراچی میں فوج کو طلب کرنے کی بجائے حکومت کو ٹارگٹڈ آپریشن کی طرف توجہ دینی چاہیے جو کہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ کراچی کی بیشتر سیاسی جماعتیں مجرموں کی سرپرستی کرتی ہیں اور اُن کی مدد کے بغیر کراچی کا بحران حل نہیں ہوسکے گا، گو موجودہ وزیراعظم ابتداء ہی سے کراچی کے مسئلہ کو اہم قرار دے کر اُس کے حل پر زوردیتے رہے ہیں۔

مگر یہ بات واضح رہے کہ یہ مسئلہ وفاقی حکومت اکیلے حل نہیں کر سکتی، اِس کیلئے اُسے پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت سمیت کراچی کے دیگر اہم سیاسی فریقین کی حمایت کی شدید ضرورت ہے اور صوبے کی اہم جماعتیں متحدہ، اے این پی، جماعت اسلامی، فنکشنل لیگ اور سنی تحریک وغیرہ کس حدتک حکومت کا ساتھ دیتی ہیں، دوسری جانب متحدہ کو خدشہ ہے کہ کراچی میں متوقع ٹارگٹڈ آپریشن کا مقصد اُسے دیوار سے لگانا ہے، چناچہ اِ س تناظر میں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ متحدہ کے تحفظات دور کرے اور اُسے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایک غیرجانبدار آپریشن کی حامی اور آپریشن بغیر کسی سیاسی تفریق کے کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم نے آپریشن کی نگرانی کے لیے کل جماعتی کمیٹی قائم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے، اِس کمیٹی کے قیام سے بھی سیاسی جماعتوں میں یہ تاثر ختم ہوگا کہ اُن کے خلاف کوئی سازش تیار ہو رہی ہے، لیکن وفاقی حکومت کا یہ قدم سوالیہ نشان ہے کہ اُس نے آپریشن کی ساری ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈال دی ہے۔

جس کی وجہ سے آپریشن کی کامیابی اور ناکامی میں صوبائی حکومت کا کردار اہمیت اختیار کر گیا ہے، اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ صوبائی حکومت ماضی کے برخلاف کس طرز عمل کا مظاہرہ کرتی ہے اور کراچی کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ آپریشن کے حوالے سے ایک فہرست بھی تیار ہوئی ہے جو سے زائد اُن لوگوں پر مشتمل ہے، جن پر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم صاحب کیلئے کراچی کے مسئلہ کا حل اُن کی اپنی صلاحیتوں کا کڑا امتحان ہوگا، کیونکہ اگر پیپلز پارٹی کی طرح کراچی کے مسئلہ پر مسلم لیگ (ن) بھی ناکام ہوتی ہے تو اِس سے کراچی کا بحران اور زیادہ سنگین صورتحال اختیار کر جائے گا، اگر یہ ٹارگٹڈ آپریشن ناکام ہو جاتا ہے تواُس کے بعد اِس کے حل کیلئے فوجی ایکشن کا مطالبہ زور پکڑے گا جو کسی فوج کی عزت و وقار کے کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا، چناچہ گیند اب وفاقی اورصوبائی حکومت سمیت سندھ کی سیاسی جماعتوں کی کورٹ میں ہے کہ وہ کراچی کے مسائل کا کیا پائیدار حل تلاش کرتی ہیں۔

Karachi Operation

Karachi Operation

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا یہ جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت کوئی الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتی، جس کی وجہ اُس نے آپریشن سندھ کے وزیراعلیٰ کی زیر نگرانی کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ کراچی حالات کے تناظر میں اِس آپریشن میں غلطی اور کمزوری کی کوئی گنجائش نہیں ہے، آپریشن کی کامیابی تب ہی ممکن ہے جب تک مصمم ارادے کے ساتھ بلا تفریق دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا، اِس وقت تک کراچی کے حالات کو بہتر بنایا اور آپریشن کی کامیابی ممکن نہیں، لہٰذا کراچی میں امن کی دعویدار ہر سیاسی جماعت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ کراچی کے حالات کو سدھارنے اور اُسے بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں اور گینگ وار کے سرپرستوں سے پاک کرنے کے لئے حکومتی فیصلوں کی تائید کریں، وزیراعظم نوازشریف نے جس طرح آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر اعلیٰ حکام کو اعتماد میں لے کر آپریشن کا فیصلہ کیا ہے، اُس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ یہ آپریشن پوری سچائی، دلجمعی اور غیر جانبداری سے کیا جائے گا، اگر یہ ناکام ہوگیا تو اِس سے نہ صرف حکومت اور اداروں کی ساخ خراب ہوگی بلکہ کراچی بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لاقانونیت کا گڑھ بن جائے گا۔

لہٰذا اس تناظر میں کراچی آپریشن جمہوری قوتوں کے لئے ایک بڑا امتحان ہے، یہ سوال اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ ماضی کی حکومت کیوں کراچی میں امن بحال نہیں کر سکی؟ آج سیاسی مصلحتوں نے کراچی شہر کو اُس دہانے پر پہنچا دیا ہے کہ ایک مرتبہ پھر حکومتی سطح پر سب کچھ چھوڑ کر کراچی کو مسئلہ نمبرون قرار دیا جا رہا ہے، سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے، جبکہ میڈیا سمیت تمام انٹیلی جنس اداروں کی بھی یہی رائے ہے کہ کراچی کو سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز نے یرغمال بنا رکھا ہے، اِن جماعتوں کی آستینوں میں چھپے ہوئے دہشت گرد کراچی کے امن کے دشمن ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں شہری اندھی گولیوں کا نشانہ بن کر زندگی ہار چکے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت اِس پہلو پر خصوصی توجہ دے کہ کراچی کو اسلحہ سے کیسے پاک کیا جائے، ٹارگٹڈ آپریشن میں جہاں دہشت گردوں، مجرموں اور قاتلوں کا قلع قمع ضروری ہے، وہیں ناجائز اسلحہ کی ضبطی بھی ایک ناگزیر عمل ہے۔

کیا اس بارے میں کوئی تیاری کی گئی ہے کیونکہ دہشت گردی میں اضافہ اسلحہ اور بارود کے بغیر ممکن نہیں اور جدید اسلحہ کی فراوانی کے باعث قانون شکن پولیس اور رینجرز پر غالب آجاتے ہیں،یہ درست ہے کہ کراچی آپریشن اگرچہ فوج کی نگرانی میں نہیں ہو رہا، تاہم وزیر اعظم نواز شریف نے آپریشن شروع کرنے سے پہلے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ فوج اِس آپریشن کے مقاصد اور اہداف سے پوری طرح متفق ہے، جوایک خوش آئند بات ہے۔ ویسے تو اِس سے قبل بھی کراچی میں اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوتے رہے ہیں، محترم آصف علی زرداری اپنے سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے ہمراہ کراچی میں بیٹھ کر کئی بار سندھ حکومت کو امن و امان کے قیام کے لئے ہدایات کرتے رہے ہیں، مگر اْن میں اخلاص اور جرات کی حد درجہ کمی تھی، جس کی وجہ سے یہ احکامات سود مند ثابت نہ ہوسکے۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف نے انتخابی مہم میں سندھ کے عوام کو یقین دلایا تھا کہ کراچی کو اُس کی روشنیاں اور امن لوٹائیں گے، یہ اُن کے لئے یہ بہت دیرینہ اور سنجیدہ معاملہ ہے، اس بار اُن طرز عمل سے یہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچتا محسوس ہو رہا ہے، لیکن اِس کے باوجود عوام کے ذہنوں میں اب بھی بے یقینی اور خدشات کے سائے موجود ہیں۔ شائد اِس لئے کہ وہ کئی عشروں سے کراچی میں قتل و غارت گری کوبرپا ہوئے دیکھتے آئے ہیں، اللہ کرے اِس بار کراچی کی عوام کی امیدیں اور خواب پورے ہو جائیں اور کراچی کی رونقیں اور امن و امان جو قومی سلامتی کیلئے لازمی ہے، دوبارہ بحال ہو جائے تاکہ لوگ سکھ وچین کی زندگی گزار سکیں، اگر ایسا ہوگیا تو یہ یقینا حکومت کی ایک ایسی کامیابی تصور ہو گی جواُس کی اب تک کی تمام ناکامیوں پر پردہ ڈال دے گی۔

تحریر : محمد احمد ترازی
mahmedtarazi@gmail.com