آسٹریلیا کے خلاف ملی کامیابی کو برقار رکھنے کی ضرورت

India

India

تقریباًدو مہینے قبل جب انگلستان اپنا شاندار دوۂ بھارت مکمل کر کے وطن واپس ہوا تھا اس وقت بھارت ۔ آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز کے متعلق اگر کوئی شخص یہ پیش گوئی کرتا کہ بھارت اس سیریز میں آسٹریلیا کا مکمل صفایا کر دے گا۔

تو اسے دیوانے کا خواب ہی کہا جاتا۔ عالمی کپ 2011 کی فتح کے بعد دورۂ ویسٹ انڈیز میں شدید جدہ جہد کے بعد ملی کامیابی کے بعد بیرون ملک ملنے والی متواتر ہزیمت نے عالمی چمپئنز کا نہ صرف یہ کہ سر نیچا کر دیا تھا۔

بلکہ ورلڈ چمپئن بننے کی ان کی اہلیت پر بھی بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر رکھا تھا۔ انگلستان اورآسٹریلیا کی سرزمین سے ملنے والی بدترین ہزیمت کا طوق گردن سے ایسا چمٹ چکا تھا۔

ٹیم انڈیا اسے اپنے ملک میں بھی نکال پھینکنے سے بے بس نظر آ رہی تھی۔سال2012کے اختتام پر جب انگلستان نے بھارتی سرزمین پر بھی ٹیم انڈیاکو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا تب تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ بھارتی ٹیسٹ کرکٹ رو بہ زوال ہو چکی ہے۔

لیکن چار۔ صفر کا یہ ناقابل یقین کارنامہ بھارتی ٹیسٹ کرکٹ کی امیدیں روشن کر گیا ہے۔ ساتھ ہی کپتان مہندر سنگھ دھونی اور کوچ ڈنکن فلیچرکی مصیبتیں جو پئے در پئے ملنے والی شکستوں کے بعد روز افزوں بڑھتی ہی جارہی تھیں، وہ اب ختم ہو چکی ہیں۔ کوچ ڈنکن فلیچر کے عہدے کی میعاد میں توسیع پہلے ہی کی جا چکی ہے۔

کپتان مہندر سنگھ دھونی آسٹریلیا کے خلاف چوتھے اور آخری ٹیسٹ میچ میں فتح درج کر کے ٹیم انڈیا کواپنی قیادت میں24 ٹیسٹ میچوں میں فتوحات دلا کر بھارت کے کامیاب ترین کپتان بننے کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔اس سے قبل یہ رکارڈ سابق کپتان سورو گانگولی کے نام تھا۔

India

India

جن کی قیادت میں بھارت نے21ٹیسٹ میچوں میں فتح حاصل کی تھی۔عالمی ٹیسٹ درجہ بندی میں اول مقام حاصل کرنے کا اعزاز بھی بھارت کو مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی میں ہی نصیب ہوا تھا۔ بھارت نے دھونی کی قیادت میں اب تک17 ٹیسٹ سیریزیں کھیلی ہیں جن میں12سیریز وںمیں ناقابل شکست رہتے ہوئے اسے9میں فتح حاصل ہوئی ہے جبکہ 3برابری پر ختم ہوئی ہیں۔

آسٹریلیا کے خلاف ملنے والی تازہ ترین کامیابی کے باوجود اس بات کا خیال ضرور رہنا چاہئے کہ یہ کامیابی گھریلو میدانوں پر نصیب ہوئی ہے۔ نیز بھارت کے خلاف سرنگوں ہونے والا حریف حالیہ دنوں میں شدید کشمکش سے دوچار تھا۔

تجربہ کار کھلاڑیوں کی ناگہانی سبکدوشی نے ٹیم کے استحکام کو متزلزل کر دیا تھا۔ مزید ستم یہ کہ بھارتی سرزمین پر جس وقت اسے اجتماعیت اور نظم و ضبط کا بھر پور مظاہرہ کرنا چاہئے تھا عین اسی وقت ٹیم انتشار کا شکار ہو چکی تھی۔

چار ۔صفر کی یہ کامیابی اسی وقت معنی خیز ثابت ہوگی جب بھارت اس کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھے اور مستقبل قریب میں کسی حریف سے خود چار۔صفر کی شکست نہ کھا جائے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جب کبھی بھارتی کرکٹ ٹیم کامیابیوں کی نئی بلندیوں پر قدم رکھنا شروع کرتی ہے۔

عین اسی وقت اس کے سر پر آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ مسلط کر دئے جاتے ہیں۔ عالمی کپ 2011کی کامیابی کے بعد ٹیم انڈیا کے اہم ارکان انڈین پریمئر لیگ میں ٹھیک اسی طرح جھونک دئے گئے تھے۔

Australia

Australia

جس طرح آئندہ3اپریل سے یہ ایک دفعہ پھر جھونکے جانے والے ہیں۔ 2مہینے کی طویل مدت تک جاری رہنے والا یہ ٹورنامنٹ کیاایک دفعہ پھر وہی گل کھلانے والا ہے جو اس نے عالمی کپ کے بعد انگلستان اور آسٹریلیائی سرزمین پر بھارتی ٹیم کے لئے ذلت و رسوائی کی شکل میں کھلایا تھا؟ ایک ایسے وقت جب بھارتی ٹیم کی تاریخی کامیابی پر جشن منایا جا رہا یہ جملہ یقینابھارتی شائقین کو سخت ناگوار گزر ے گا۔

لیکن ماضی کا تلخ تجربہ ہمیں مستقبل کا یہی منظر دیکھنے پر مجبور پر کر رہا ہے۔آئی پی ایل کے اختتام کے بعد بھارت چیمپئنز ٹرافی میں حصہ لے گا جس میں ا س کا مقابلہ جنوبی افریقہ اور پاکستان جیسے سخت حریفوں سے ہونے جا رہا ہے۔ جس کے بعد جولائی میں ویسٹ انڈیز میں اسے سہہ رخی سیریز کھیلنی ہے جس کی تیسری ٹیم سری لنکا ہے۔ یہ تمام مقابلے ایک روزہ طرز کے ہیں۔

جس کا مطلب ہے کہ بھارت کا مستقبل قریب میں ٹیسٹ میچوں میں کوئی امتحان نہیں ہے۔ بھارت کی اصل آزمائیش2013کے اختتام پر دورۂ جنوبی افریقہ میں ہوگی۔ آسٹریلیا کے خلاف موجودہ کامیابی اسی وقت حقیقی کامیابی تصوری کی جائے گی جب ٹیم انڈیا اس کارکردگی کو برقرار رکھتے ہوئے جنوبی افریقہ میں نہ صرف یہ کہ اپنا وقار مجروح نہ ہونے دے بلکہ سرخرو ہو کر وطن واپس ہو۔
تحریر : سلمان غنی