بنگلہ دیش میں مذہبی کشیدگی کیوں بڑھ رہی ہے؟

Protest

Protest

بنگلہ دیش (اصل میڈیا ڈیسک) بنگلہ دیش میں گزشتہ ہفتے ہندوؤں کے کئی مندروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ وجہ ایک ایسی ویڈیو تھی، جس میں ہندوؤں کے مذہبی تہوار دورگا پوجا کے دوران مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو ایک بُت کے قدموں میں رکھا دیکھا جا سکتا ہے۔

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بنگلہ دیش کے قریب بارہ سے زائد اضلاع میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ہندوؤں کے گھروں پر حملے ہوئے اور تور پھوڑ کی گئی۔ ان احتجاجی مظاہروں میں دو ہندوؤں سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے۔

بعدازاں پیر کو ہندوؤں کی ایک تنظیم کی جانب سے ان حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک اہم سڑک کو بلاک کر دیا گیا تھا۔ ہندوؤں کے کئی دیگر گروپ بھی اس احتجاج میں شامل ہو گئے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کو تحفظ پہنچانے کے لیے ملکی انتظامیہ کو ایسے حملوں کو فوری روکنا ہو گا اور اس واقعے کی شفاف تحقیقات کی جانی چاہییں۔

بنگلہ دیش کی ہندو کمیونٹی پہلے بھی تشدد کا شکار رہی ہے۔ ملک کی ایک انسانی حقوق کی تنظیم این او سیلاش کیندرا ( اے ایس کے) کے مطابق سن 2013 سے اب تک اس ملک میں ہندوؤں پر 3600 سے زیادہ حملے کیے جا چکے ہیں۔ ان حملوں میں گیارہ ہندو ہلاک اور 862 افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہندو خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات بھی رپورٹ کیے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ”ہندو بدھسٹ کرسچئن یونیٹی کونسل” کے جنرل سکریٹری رانا داس گپتا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوؤں پر اصل حملے رپورٹ کیے گئے حملوں سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا،”ہم نے سوچا تھا کہ عوامی لیگ کی حکومت کے دور میں ہندوؤں کی زندگی میں بہتری آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔”

بنگلہ دیش کی کل 170 ملین آبادی میں سے نو فیصد ہندو ہیں۔ ملک کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سکیورٹی صورتحال کے باعث بہت سے ہندو پڑوسی ملک بھارت نقل مکانی کرنے پر بھی مجبور ہوئے ہیں۔

داس گپتا سخت گیر مذہبی جماعتوں، خاص طور پر بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی جماعت، جماعت اسلامی کے حامیوں کو ہندو برادری پر حملوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

تاہم کئی سال قبل پاکستان کے خلاف سن 1971 کی جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں یہ جماعت اپنے کئی سرکردہ سیاسی رہنماؤں کو پھانسی کی سزاؤں کے باعث کھو چکی ہے اور اب کافی حد تک غیر فعال ہو گئی ہے۔

بائیں بازو کی سیاسی جماعت گناسماہتی اندولن کے چیف کوآرڈینیٹر جنید ساقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عوامی لیگ ہندوؤں پر ہونے والے حملوں کی مذمت تو کرتی ہے لیکن انہیں دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا ،”ان حملوں کا طریقہء کار ایک سا ہوتا ہے۔ پہلے فیس بک پر کچھ پوسٹ کیا جاتا ہے اور پھر لوگ اسے ‘اسلام کی توہین’ قرار دیتے ہیں اور پھر لوگوں کا ایک گروہ ایک خاص جگہ پر حملہ کرتا ہے، جہاں مذہبی اقلیتیں رہتی ہیں۔”

رانا داس گپتا کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اصلاحات کے وعدوں کے باوجود ہندوؤں کو انصاف نہیں مل پاتا۔ انہوں نے کہا، ”ماضی کی حکومتوں نے ہندو متاثرین کو ان پر حملوں کے باوجود کیسز درج کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اب عوامی لیگ کی حکومت میں ہم مقدمات درج تو کروا سکتے ہیں لیکن شکایات درج کرنے کے بعد بھی انصاف نہیں ملتا۔”

تاہم بنگلہ دیشی وزیر داخلہ اسد الزمان خان نے اصرار کیا ہے کہ ہندوؤں کے گھروں اور مندروں پر حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انہوں نے جمعے کو ڈھاکا میں صحافیوں کو بتایا ،”تمام واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی اور ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا ، کسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔”