خبردار ! سیمسنگ ٹی وی آپ کی ذاتی گفتگو بھی سن سکتے ہیں

Samsung tv

Samsung tv

اگر آپ کے ڈرائنگ روم میں سیم سنگ کا اسمارٹ ٹیلی وژن رکھا ہوا ہے تو وہ آپ کی ذاتی گفتگو سن بھی سکتا ہے اور آگے بھی پہنچا سکتا ہے۔ اس کمپنی کے آواز ریکارڈ کرنے والے اسمارٹ ٹی وی انٹرنیٹ سے منسلک ہوتے ہیں۔

جنوبی کوریا کی اس کمپنی کی طرف سے نئے اسمارٹ ٹی وی سیٹوں میں ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے، جو آواز کی پہنچانتے ہوئے اس ریکارڈ بھی کرتی ہے۔ یہ ٹی وی آپ کے کمرے میں ہونے والی تمام گفتگو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کی پیار بھری گفتگو بھی اور لڑائی جھگڑے بھی سنے اور ریکارڈ کیے جا سکتے ہیں۔

سیم سنگ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری ٹی وی پرائیویسی پالیسی میں لکھا ہے، ’’ براہ مہربانی آگاہ رہیں کہ آواز پہچاننے والی آپشن استعمال میں لاتے ہی آپ کی بول چال اور دیگر ذاتی یا حساس معلومات بھی ڈیٹا کے درمیان جمع ہو جائے گی اور یہ ڈیٹا ایک تیسری پارٹی کو منتقل کیا جاتا ہے۔‘‘
سمارٹ ٹی وی میں وائس کمانڈ کی آپشن رکھی گئی ہے۔ صارف کے کہنے پر ٹی وی آن ہو جائے گا۔ ٹی وی کو اسی طرح کی دیگر احکامات بھی دیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے کمپنی کی طرف سے ایک تھرڈ پارٹی کا سافٹ ویئر استعمال کیا گیا ہے، جو آواز کو ٹیکسٹ میں تبدیل کرتا ہے اور دوبارہ اس کمانڈ یا حکم نامے کو ٹی وی کی طرف بھیجتا ہے۔

سیم سنگ کی طرف سے اس سافٹ ویئر تیار کرنے والی کمپنی کا نام نہیں بتایا گیا ہے۔ اسی طرح یہ ٹی وی ’یونیک اڈینٹی فائر‘ کے ذریعے ’دیگر معلومات‘ بھی منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیم سنگ کا کہنا ہے کہ ڈیٹا جمع کرنے کا مقصد ٹی وی کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے تاہم صارفین ڈیٹا جمع کرنے کی آپشن کو بند بھی کر سکتے ہیں۔ اس کمپنی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے صارفین کی پرائیویسی کے بارے میں ’انتہائی سنجیدہ‘ ہے۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ سمارٹ ٹی وی کی وجہ سے صارفین کی ذاتی معلومات کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہو۔ سن دو ہزار تیرہ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ ایل جی الیکٹرانکس کے اسمارٹ ٹی وی ناظرین کی ٹی وی دیکھنے کی عادات سے متعلق معلومات واپس کمپنی کو بھیجتے ہیں۔ یہ کام صارفین کی اجازت کے بغیر اور خفیہ طریقے سے کیا جا رہا تھا۔

اسی طرح ایل جی کمپنی اسمارٹ ٹی وی پر مخصوص اشتہارات دکھانے کا تجربہ بھی کر چکی ہے۔ اور ایسا تجربہ کرنے کے لیے ایسے ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہو کہ صارف کا مقام کیا ہے، عمر کتنی ہے اور جنس کونسی ہے۔