بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ کبھی بھی حل نہیں ہو سکے گا

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

اسلام آباد (جیوڈیسک) بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کی ٹیم کے سربراہ کا کہنا ہے بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہاتھ کبھی بھی بینقاب نہیں ہو سکیں گے۔ پاکستان کا کوئی بھی ادارہ حقیقی قاتلوں کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا۔ ہیرالڈو مونیز اس وقت اقوام متحدہ میں نائب سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

بے نظیر بھٹو کے قتل پر لکھی جانے والی کتاب میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ کبھی بھی حل نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس معاملے میں حکومت اور عدلیہ دونوں کی رضامندی اور استعداد کار ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کے سیکورٹی مطالبات کو نظر انداز کر کے ایک طرح سے قاتلوں کو معاونت فراہم کی بے۔

نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے پاکستانی خفیہ ادارے یا اس کے کچھ افسران کے مشکوک کردار پر سے اب تک پردہ نہیں ہٹایا جا سکا۔ ہیرالڈو مونیز نے تحقیقات کے سلسلے میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا سے بھی ملاقات کی جن کا کہنا تھا وہ اس وقت کے آرمی چیف کے احکامات کی پیروی کر رہے تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ہیرالڈو مونیز سے ملاقات میں شک ظاہر کیا کہ تحریک طالبان پاکستان تن تنہا بے نظیر بھٹو کے قتل کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی۔

جنرل کیانی نے بی بی کیقتل میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو خارج ازامکان قرار دے دیا تاہم حکومت کی تحقیقات پر انہیں تحفظات تھے۔ انہوں نے ہیرالڈو مونیز کو ملاقات میں کہا کہ بی بی کے قتل کے بعد وزارت داخلہ کی پریس کانفرنس کو قبل وقت تھی۔ ایسے معاملات میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یہ پریس کانفرنس نہیں ہونی چاہئے تھی صرف ایک فون کال پر قتل کی ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

جنرل کیانی نے جائے وقوع کو فوری طور پر دھونے کے عمل پر بھی تنقید کی ہیرالڈ مونیز اپنی کتاب کے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایسے لگتا ہے جیسے القاعدہ نے بینظیر بھٹو کے قتل کے احکامات جاری کئے جس پر پاکستانی طالبان نے عمل درآمد کیا جنہیں اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر کی آشیر باد بھی حاصل رہی۔ مشرف حکومت نے اپنی غفلت کے ذریعے اس قتل میں معاونت کی۔

مقامی پولیس اہلکاروں نے اس قتل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی بے نظیربھٹو کی سیکورٹی ٹیم بھی انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ بیشتر پاکستانی سیاستدان تحقیقات جاری رکھنے کی بجائے وقت گزاری میں مصروف رہے اور کوئی بھی حقیقی قاتلوں کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا۔