لہو کے پیاسے لوگ

Terrorists In Pakistan

Terrorists In Pakistan

دہشت گردوں نے تو پاکستان کو اپنا گھر بنا لیا ہے۔ دہشت گردوں سے تو اب کوئی بھی محفوظ نہیں مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ ایک وقت تھا دہشت گرد دستی بموں کا استعمال کیا کرتے تھے پھر تھوڑا سا جدید دور آیا اور دہشت گرد اپنے مقاصد کے لیے ٹائم بم کا استعمال کرنے لگے اور اب اس سائنسی اور جدید الجدید دور نے تو حد ہی کر دی۔ اب دہشت گرد کم عمر نوجوانوں کو خودکش جیکٹ پہنا کر اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ جتنی ترقی سائنسی اعتبار سے ممالک کر رہے ہیں اتنی ہی رفتار سے ترقی دہشت گرد بھی کر رہے ہیں۔

الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ملک بھی اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے۔ اسلام ہمیں قتل وغارت سے سختی سے منع کرتا ہے۔ جس نے کسی ایک شخص کی بھی جان لے لی وہ آخرت میں جہنم کی آگ میں جلے گا۔ بدقسمتی ہم مسلمانوں کی دیکھو کہ دنیا بھر کی دہشت گردی ہمارے ملک میں ہو رہی ہے اور دہشت گردی میں ملوث بھی مسلمانوں کا کیا جا رہا ہے۔

مسلمان تو مسلمان اب پاکستان میں اقلیتوں کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا ہے۔ عبادت گاہیں خوا ہ وہ مسلمانوں کی ہوں یا اقلیتوں کی اب وہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ جس نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا وہ اپنے رب اور خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف نہیں جا سکتا۔ آج جب یہ سنتے ہیں کہ فلاں شہر میںیا عبادت گاہ میں دھماکہ ہوا یا خود کش حملہ ہوا اور اس کی ذمہ داری طالبان نے یا کسی فرقہ وارانہ جماعت نے قبول کرلی ہے تو یقین نہیں آتا کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا ناحق خون کیوں کرے گا۔ کوئی مذہب عبادت گاہوں پر حملے کی اجازت نہیں دیتا۔

22 ستمبر کے دن میں گھر پر بیٹھا چھٹی کے دن کو انجوائے کررہا تھا کہ اچانک ٹی وی پر ایک نیوز بریک ہوئی کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کوہاٹی گیٹ کے قریب ایک گرجا گھر پر دو خودکش حملہ آوروں نے حملہ کر کے 80 کے قریب لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اور 100 سے زیادہ افراد کو ہسپتال میں پہنچا دیا۔ یہ حملہ پاکستان کی تاریخ میں عیسائی برادری پر ہونے والے بدترین حملوں میں سے ایک ہے۔

Peshawar Blast

Peshawar Blast

دھماکے اتوار کی صبح اس وقت ہوئے جب مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے پانچ چھ سو کے قریب افراد دعائیہ تقریب کے لیے آل سینٹس کیتھیڈرل نامی چرچ میں جمع تھے اور جس وقت لوگ عبادت کے بعد گرجا گھر سے باہر نکل رہے تھے کہ خودک حملہ آوورں نے دھماکے کر دیئے۔

گرجا گھر کی انتظامی کمیٹی کے مطابق حملہ آور فائرنگ کرتے ہوئے چرچ میں داخل ہوئے او پھر یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔ عینی شاہدوں اور انتظامیہ کے بقول خودکش حملہ آوروں کی عمر سترہ، اٹھارہ سال کے قریب تھی اور حملوں میں کم از کم سولہ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔

چرچ میں دھماکوں کے بعد ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔ پاکستان کی ہر سیاسی، مذہبی، سماجی تنظیموں اور این جی اوز ان دھماکوں کی پُرزور مذمت کی۔ مسیحی برادری کے ساتھ احتجاج میں بھرپور شرکت کی اور یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی عوام اس دکھ درد میں اپنے اقلیتی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتی ہے۔

بات سوچنے کی یہ ہے کہ کیا کوئی اہل کتاب اپنی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچائے گا؟ اور ابھی تک کسی مذہبی تنظیم یا طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ جس کے بعد یہ بات قابل غور ہے کہ یہ خودکش حملہ کرنے والے کون ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نواز حکومت نے جو اے پی سی بلائی اور اسکے بعد طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دیا اس سبوتار کرنے کے لیے پاکستان مخالف قوتوں نے یہ قدم اٹھایا ہو؟ اپر دیر کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ دشمن پاکستان نے ایک اور چال چل دی۔

اسلام دشمن اور پاکستان مخالف نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔ا گر طالبان اور حکومت میں مذاکرات کامیاب ہوگئے تو پھر ان دہشت گردوں کابھی راز فاش ہوجائے گا جو طالبان کے نام پاکستان کے حالات خراب کر رہے ہیں۔

دہشت گرد جو بھی ہیں وہ لہو کے پیاسے لوگ ہیں۔ ان کا مقصد مسلمان یا عیسائی کی موت نہیں بلکہ وہ تو صرف ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے۔ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک دیکھنا پسند نہیں کرتے۔

وہ پاکستان میں کبھی فرقہ واریت تو کبھی مسلم اور غیر مسلم کو لڑا کر اپنے مقاصد پورا کرنے میں کامیاب
ہو جاتے ہیں۔

ویسے بھی دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وہ تو پیسے کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کبھی اس بات کی مکمل تحقیق نہیں کی کہ دھماکے کرنے والے مسلمان ہیں یا یہودی ایجنٹ۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان
سینئر نائب صدر کالمسٹ کونسل آف پاکستان
aqeelkhancolumnist@gmail.com