بھینس کے آگے بین

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں غربت اور بے انصافی اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے جس سے ہر وہ معاشرتی برائی جنم لے چکی ہے جو صرف فلموں میں دیکھی جا سکتی تھی جسکی وجہ ملک میں کرپشن کا نظام بچے جن رہا ہے اور عدل صاحب اولاد نہیں ہو رہا قیام پاکستان سے لیکر اب تک محنتی اور ایماندار شخص کمزور اور غریب تر ہوتا چلا گیا اور آج یہ وقت آچکا ہے کہ اس سے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم نہیں رکھا جا رہا اور غربت کی دلد ل میں ایک نسل کے ڈوبنے کے بعد دوسری بھی آدھی سے زیادہ دھنس چکی ہے۔

جبکہ انکے مقابلے میں کمیشن مافیا اور قومی لٹیروں نے اپنے لیے محل تعمیر کرلیے اور جگہ ان چوروں کی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہیں مگر انکو کوئی پکڑنے والا نہیں کیونکہ جنہوں نے پکڑنا ہے وہ خود حکومت میں اپنی اپنی لوٹ مار میں مصروف ہے اور غریب انسان ڈسپرین کے لیے تڑپ رہا ہے ہسپتال ہیں کہ قربان گائیں بنی ہوئی ہیں جہاں آئے روز غریب عوام کی قربانی ہو رہی ہے اور سرکاری ادویات ہیں کہ امراء کے گھروں میں پہنچائی جارہی ہیں۔

حکومت کو اسکے سیاہ کرتوت شیشے کی طرح دکھانے پر بھی کوئی اثر نہیں ہورہا ایسے لگتا ہے کہ ہم بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں کوئی سننے والا نہیں ہر کوئی اپنی مستی میں مگن ہے مہنگائی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے اور ایک عام آدمی کی قوت خرید کے ساتھ ساتھ اسکی قوت برداشت بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔

پاکستان میں کوئی ایسا لیڈر کوئی ایسی جماعت نظر نہیں آرہی جو غریبوں کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو آگے بڑھ کر سہارا دے سکے ایک پٹواری سے وزیر اعظم تک سبھی نے اپنی آنے والی نسلوں کا بھی مستقبل محفوظ بنا لیا کسی نے پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کررکھی ہے تو کسی نے بیرون ملک لوٹی ہوئی دولت کے انبار لگا رکھے ہیں۔

Poverty

Poverty

غریب تو اس بار عید کے دن بھی گوشت سے محروم ہی رہا غُربت کو اُمل لخبائث کہا گیا ہے۔ انگریزی کا ایک محا ورہ ہے کہPoverty is the mother of all evilsکہ غُربت تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ حضرت فا طمتہ الزہراء فر ماتی ہے جب کوئی بھوکا دیکھو تو یہ مت سمجھنا کہ خدا کے رزق میں کمی ہے بلکہ سمجھ لینا کہ کسی ظالم نے اُس کا رزق چھین لیا ہے حضرت عمر فا روق رضی اللہ تعالی غَنہُ فرماتے ہیں سب سے بدبخت حکمران وہ ہیں جسکے ہاتھوں اسکی رعایا تباہ و برباد ہو جائے، سلطان صلاح الدین ایوبی فرماتے ہیں جہاں روٹی مزدور کی تنخواہ سے مہنگی ہوجائے، وہاں دو چیزیں سستی ہوجاتی ہیں عورت کی عزت اور مرد کی غیرت، ارسطو کہتا ہے کہ سب سے بڑی غیر مساویانہ اور غیر انصافی کی بات یہ ہے کہ غیر مساویانہ چیزوں کو مساوی اور برابر کرنے کی کوشش کی جائے، لینن کہتا ہے جب غُربت انقلاب بر پا نہیں کر تی تو جرائم پیدا کرتی ہے،مشہور سائنس دان آئن سٹائن کہتا ہے کہ دنیا اُن لوگوں سے تباہ و برباد نہیں ہوگی جو بُرائی کرتے ہیں بلکہ دنیا اُن لوگوں سے تباہ و برباد ہوگی جو اُنکے دیکھنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کرتے۔
.
اگر ہم مندرجہ بالا اقوال کا تجزیہ کریں تو اس سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستانی قوم مہنگائی، لاقانونیت، بے روز گاری سے نالاں ہے اوراُ سنے نے اس کرپٹ اور فضول نظام سے جان چُھڑانے کے لئے موجودہ حکمرانوں کو اس آس پر ووٹ دیا اور انکو کامیابی دلائی کہ وہ حسب وعدہ انکی زندگی میں کوئی مُثبت تبدیلی لائیں گے مگر بد قسمتی سے ماضی کی طرح موجودہ حکمرانوں نے بھی اس سادہ لوخ عوام کو دھو کا دیا جسکا نتیجہ یہ ہے کہ یہ بد قسمت اور مفلوک الحال 22 کروڑ عوام مہنگائی، بے روز گاری، لاقانونیت کی چکی میں مزید پس رہے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ، سرمایہ دار، جاگیر دار اور صنعت کار کی پوری پوری کوشش ہے کہ ان پسے ہوئے طبقات کو مزید پسا جائے اور عوام جو موجودہ کرپٹ اور بد عنوان نظام سے بغاوت یا انقلاب لانے کی کوشش کرتے ہیں اسکو کسی طریقے ناکام بنا دیا جائے۔

مگر بقول لینن کے غُربت سے انقلاب تو بر پا نہیں ہوا مگر اس جبری نظام کی وجہ سے جرائم کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوا۔ اگر مہنگائی، لاقانونیت، امیر اور غریب کے درمیان تفاوت اور بے روزگاری پر قابو نہیں پایا گیا تو ہمیں اپنے دشمنوں سے نہیں بلکہ وطن عزیز کے اُن 18 کروڑ غریب اور مفلوک الحال عوام سے ضرور ڈرنا چاہئے جو اکیسویں صدی میں غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اپنے جگر گوشوں کو قتل کرنا، بچوں کو ریل کے نیچے پھینکنا، غریب بہنوں اور بچیوں کا جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہ ہونا اور دریائی موجوں کی نذر اپنی زندگی کرنا، قتل، اغوا برائے تاوان، بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز، بھتہ خوری، بے روزگاری اب یہاں کا ایک معمول بن گیا ہے۔

وطن عزیز میں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ دوست کون اور دشمن کون۔ مملکت خداد پاکستان کو اشرافیہ دونوں ہاتھ سے لوٹ رہے ہیں اور غریب کی زندگی بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ بچوں پر خون پسینے کی کمائی کے لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی قوم کا یہی سرمایہ افتخار با عزت روزگار کا متلا شی۔ مگر پھر بھی سماجی انصاف کی کوئی ایسی کرن نظر نہیں آرہی ہے جس سے انکو ڈھارس ہو کہ کہیں انکے اچھے دن بھی آئیں گے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر

فون نمبر : 03466444144