برما مسلمانوں کا قتل عام ، اقوام عالم کی ہٹ دھرمی

Burma

Burma

برصغیر اور برما کے درمیان کوئی بارڈر نہیں تھا اور لوگ آزادانہ آیا جایا کرتے تھے۔ حکومت برطانیہ نے اپنی ضرورت کے تحت برصغیر کے لوگوں کو برما میں سہولتیں دیں اور انہیں فوج، پولیس اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں ملازمتیں بھی دلائیں اور یوں برما میں لوگ آباد ہوتے گئے۔ ان میں مسلمان بھی شامل تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں برصغیر اور برما کے لوگوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں ہی جاپان نے برما پر قبضہ کیا اور جاپانی فوج نے برما کے قوم پرستوں اور بدھ متوں کے ساتھ مل کر28 مارچ 1942 کو مسلمانوں کا قتل عام کیا۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا اور پچاس ہزار سے زائد لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ اس سے پہلے بھی بودھ انتہا پسند سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو اپنے ہی وطن میں اجنبی اور غیر ملکی ہیں۔ یہ برما کے وہ مسلمان ہیں جنہیں تین سوسال اپنے ہی وطن میں رہنے کے باوجود شہریت سے محروم کر دیا گیا۔ روہنگیا مسلمان جن پر برما کی زمین تنگ کر دی گئی۔ جن کی بستیوں پر بودھسٹ لامائوں اور سیکورٹی فورسز نے مل کر حملہ کیا، گھروں کو آگ لگائی، گھروں سے بھاگ کر جان بچانے والوں پر گولیاں برسائیں، خواتین بچوں اور بوڑھوں کو بیدردی سے قتل کیا۔

خواتین کو انتہائی درندگی کا نشانہ بنایا گیا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جس پر دنیائے انسانیت کی بے حسی ایک سوالیہ نشان ہے۔ حال ہی میں برما کے ینگون شہر میں مسلمانوں کے ایک مدرسے کو رات تین بجے آگ لگا دی گئی۔ اس مدرسے میں 70 یتیم طلبہ قرآن پاک حفظ و ناظرہ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ عمارت کے فلور پر مٹی کے تیل اور ڈیزل سے ایسے آگ لگائی گئی تاکہ کوئی طالب علم بھاگ نہ سکے اور آگ بجھانے کیلئے فائر بریگیڈ کے عملہ کو بھی روک د یا گیا۔

اس حملے میں قرآن پاک حفظ کرنیوالے 13 طالب علم شہید ہوئے جن کی عمریں13 سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ جن کے نماز جنازہ میں ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ گزشتہ سال سینکڑوں بدھسٹ انتہا پسندوں نے ایک بس پر حملہ کیا، جس میں 10 مسلمان علمائے دین سوار تھے۔ ان علمائے دین کو بس سے اتار کر بیدردی سے قتل کیا گیا اور بس کو آگ لگا دی۔ دوسرے دن جمعتہ المبارک کو مسلمانوں نے احتجاج کرنا چاہا تو سیکورٹی فورسز نے ان پر گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ شہید اور زخمی ہوئے۔

Attacks

Attacks

عینی شاہدین کے مطابق Rakhino صوبے کی تمام مسلمان آبادیوں پر بدھ انتہا پسندوں نے سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر حملے کئے۔ یہ ظلم اکثر شہروں اور قصبوں میں مسلمان آبادیوں پر کیا گیا۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعلیمی درسگاہکو آگ لگا دی گئی۔ مدرسہ کے پرنسپل چار سینئر اساتذہ کرام اور اٹھائیس طلبہ کے ساتھ شہید ہوئے جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ زخمی بھی ہوئے۔ جون 2012ء سے اکتوبر 2012 تک ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ تقریباً تین لاکھ مسلمانوں کو بنگلہ دیش، 24 ہزار مسلمانوں کو ملیشیا اور اتنی ہی تعداد میں لوگوں کو تھائی لینڈ نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔

تقریباً ایک لاکھ دس ہزار مسلمان تھائی، برما بارڈر پر بے یارومددگار پڑے ہیں اور اسی طرح ایک لاکھ سے زیادہ لوگ برما، بنگلہ دیش بارڈر پر موجود ہیں۔ یہ لوگ ان ممالک کی طرف سے داخلے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے بارڈر پر ہی مقیم ہیں۔ بارڈر پر ان مسلمانوں پر برما کی فوج اور بدھ انتہا پسندوں کے حملے جاری رہتے ہیں۔ جن سے بچنے کیلئے مسلمان کشتیوں کے ذریعے سمندر میں چلتے جاتے ہیں یا کود جاتے ہیں۔ جن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملتی کہ وہ کہاں گئے؟ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں قبضے کے بعد برما تک اپنی حکمرانی کا دائرہ بڑھایا۔

اور اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کیلئے برصغیر سے ہنرمند لوگ اپنے ساتھ لے گئے۔ 1959 کو Col. Tin کے حکم پر مسلمانوں کے 34 دیہاتوں کو خالی کروا کر ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیا۔ اس ظلم کے خلاف شدید احتجاج ہوا تو نتیجتاً برما کے فوجی جرنل U Ne Win کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا اور مسلمانوں کو دوبارہ اپنے گھروں میں جانے کی اجازت دی گئی۔ 1978 میں U Ne Win کے حکم پر تین لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو بے گھر کیا گیا۔ انٹرنیشنل کمیونٹی کے دبائوکی وجہ سے جنرل U Ne Win کی حکومت کو ان بے گھر مسلمانوں کو واپس لینا پڑا لیکن U ne Win حکومت نے مختلف استحصالی اقدامات کے ذریعے برما میں مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔

جس کی نمایاں مثال 1982 ء میں شہریت ایکٹ کے ذریعے مسلمانوں کی شہریت کو ختم کرنا ہے۔انہیں غیر ملکی قرار دیا گیا اور قانونی طور پر ان کو زیر عتاب لانے کیلئے مختلف اقدامات کئے گئے۔ جن میں مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا، قومی شناختی کارڈ نہ دینا، شادی پر پابندی لگانا، مسلمان آبادیوں میں بدھ مت لوگوں کو Settle کرنا، آزادانہ نقل و حمل پر پابندی لگانا، اعلیٰ تعلیم کا دروازہ بند کرنا، سرکاری ملازمتوں سے محروم رکھنا، فوج، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے مسلمانوں کو نکال دینا، مسلمانوں کی جائیدادوں پر زبردستی قبضہ کرنا اور بدھسٹو ں کو وہ جائیدادیں الاٹ کرنا، مساجد کو تباہ کرنا، عبادت پر پابندی لگانا اور نسل کشی کرنا شامل ہے۔

Burma Army

Burma Army

1991 میں بھی مسلمانوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر انتقامی کارروائی کی گئی اور مسلمانوں کو پڑوسی ملکوں میں بھاگ کر جان بچانا پڑی۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ برما کی فوج بدھ انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی نسل کشی میں براہ راست ملوث ہے۔ ایشیا واچ کے مطابق برما کی فوج مسلمانوں کو ختم کرنے کیلئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے، کیونکہ ان کے مطابق مسلمان برما میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ 1982 کے قانون کی رو سے برما کے مسلمانوں کو شہریت کے حق سے محروم کر دیا گیا۔

اسی لئے مسلمانوں کے خلاف ہر اقدام کو وہ قانونی طور پر حق بجانب سمجھتے ہیں۔ 19 جولائی 2012 کو برما کے سابق فوجی جنرل اور صدر Thein Sein نے کہا کہ مسلمانوں کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ ان سب کو یو این او کی نگرانی میں کسی دوسرے ملک میں آباد کیا جائے یا برما سے باہر کسی مہاجر کیمپ میں رکھا جائے۔ برما کی بودھ قوم یہ سمجھتی ہے کہ برما صرف ان لوگوں کے لئے ہے لیکن جو مسلمان 300 سال سے زائد عرصے سے برما کے رہائشی ہیں وہ کہاں جائیں برما میں تقریباً دس لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔

برما کے بارڈرز بنگلہ دیش، انڈیا، تھائی لینڈ، ویت نام، کمبوڈیا سے ملتے ہیں،خلیج بنگال اور انڈومان سے لگتے ہیں۔ بنگلہ دیش واحد مسلمان ملک ہے جس کا بارڈر برما کے ساتھ ہے مگر وہ اپنی مجبوری کی وجہ سے زیادہ تعداد میں ان مسلمانوں کو خوش آمدید کہنے کیلئے تیار نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلائے جس میں برما میں جاری مسلمانوں کی خونریزی بند کرنے کا مطالبہ کیا جائے اور ان کو شہریت کا حق دلائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برما کی حکومت اور پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا ہے۔

کہ 1982 کے شہریت ایکٹ کو ختم کر کے مسلمانوں کو برما کی شہریت دی جائے اور ان کو بنیادی حقوق دیے جائیں۔ بیس ممالک کے سفیروں نے ایک ٹیلی فون کانفرنس کے ذریعے ان مسلمانوں کی صورتحال کا جائزہ لیا اور تعاون کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا۔ ان ممالک میں آسٹریا، بیلجیئم، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، امریکہ، نیوزی لینڈ اور یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں۔ مسلم دنیا بھی برما کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے آگے آئے اور ان کو سیاسی اور سفارتی کوششوں سے برما میں انہیں بنیادی حق دلانے میں مدد کرے۔

MA Tabassum

MA Tabassum

تحریر : ایم اے تبسم
email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102