صرف ایک کال

Call

Call

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

آج کل پاکستان کے کسی بھی گوشے میں چلے جائیں آپ کو ہر جگہ بے لگام انسانوں کے ریوڑجتھوں کی شکل میںایک دوسرے پر حملہ آور نظر آئیں گے موجودہ دور کو بلا شبہ سائنسی ترقی تہذیب و تمدن کا نقطہ عروج کہا جاتا ہے دنیا جہاں سے جہالت کی تاریکی چھٹ چکی ہے ہر جگہ اعلیٰ اخلاقی اقدار نظر آئیں گی لیکن جب آپ پاکستان کے پچھلے چند سال کا مطالعہ کریں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ موجودہ ترقی کے دور میںیہاں پر بسنے والے یہ جانور نما انسان کس سیارے سے پاکستان کی دھرتی پر آبسے ہیں جو تہذیب و تمد ن اعلیٰ تعلیمی مذہبی اخلاقی اقدار سے کوسوں دور جنگلی جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں آپ کسی بازار محلے سڑک فنکشن پارک میں چلے جائیں ہر جگہ آپ کو چنگیزی دور کے درندہ نما جانور نظر آئیں گے جو انسانوں کے روپ میں ایک دوسرے کو چیرتے پھاڑتے لوٹ مار کرتے نظر آئیں گے۔

ہر بندہ ہتھیاروں سے لیس شکار کی تاک میں ہے جیسے ہی کوئی کسی کی زد میں آیا نہیں انہوں نے اُس پر حملہ کیا نہیں اگر کوئی محفوظ ہے تو اپنی طاقت کے بل پر ورنہ یہاں نہ کوئی گھر میں محفوظ ہے اور نہ ہی گھر سے باہر ۔اِن بے راس جانوروں کو آپ ہر جگہ ملاحظہ فرماسکتے ہیں جو جزا سزا کے تصور سے آزاد ہیں جنہیں کسی قانون مذہب معاشرتی اقدار کا بلکل خوف نہیں ہے یہ ہر جگہ اپنی عدالت لگا کر جو دل کر لے کر گزرتے ہیں یہ جہالت درندگی نسل در نسل اب ہمارے جین کا حصہ بن گئی ہے یہاں پر طاقت کا راج ہے اگر کوئی کمزور غریب کسی بڑے کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات کرتا ہے تو اُس کے خاندان جوان بچیوںعورتوں کو بے لباس کر کے سڑکوں پر ننگا مارچ کرایا جاتا ہے یا پھر جلتے بھٹے فیکٹری کی چمنیوں میں زندہ انسانوں کو ڈال کر کباب بنا دیا جاتا ہے۔

اگر کسی سے غلطی ہو گئی ہے تو اُس کو سزا بھی خوفناک طریقے سے دینی ہے سزا دینے میں بھی اپنی خاندانی غلط روایات کی کلغی کو اونچا کہا جاتا ہے معصوم بچے بچیاں جنسی درندوں کے ہاتھوں دن رات پامال ہو رہی ہیں کوئی اُن کو لگام دینے والا نہیں ۔ہمارامعاشرہ اِس قدر بانجھ بے حس متشدد ہو چکا ہے دن رات ظالم طاقت ور اذیت دینے کے نت نئے طریقے دریافت کر کے اپنی نفسیاتی آسود گی حاصل کر تے ہیں چند ماہ پہلے اسلام آباد کے دوا میر زادوں نے کس طرح بنت حوا کو ذلیل رسوا کیا ایک نے تو ننگا ڈانس دوستوں کے ساتھ کیا جبکہ دوسرے نے سر تن سے جدا کر کے اُس مقتول کے سر سے فٹ بال کھیلا ان دونوں جنسی درندوں کی طاقت کا اندازہ آپ اِس بات سے لگالیں کہ مظلوم خوف سے بھاگتے پھر رہے ہیں کہ ہمارے اوپر تو کوئی ظلم ہوا ہی نہیں دوسرا پاگل جنسی درندہ ظاہر جعفر سرے سے اپنے قتل ظلم سے ہی انکار ہو گیا ہے کہ میں تو نور مقدم پر کوئی ظلم قتل نہیں کیا۔

پتہ نہیں کسی نے آکر لڑکی کو قتل کیا ہے جبکہ پاگل جنسی درندہ یہ بھول چکا ہے کہ جب لوگ کمرے میں داخل ہوئے تو اِس جنونی نے اُن پر بھی حملہ کردیا تھا پھر مینار پاکستان پر جس طرح بے لگام جانوروں نے ایک لڑکی پر حملہ کیا پھر اُس کے ساتھ جو حرکتیں کیں ہے دنیا بھر کے سامنے ذلیل کے رکھ دیا کہ یہ کو نسا خطہ ہے جہاں پر انسان جتھوں کی شکل میں عورتوں پر حملہ کر کے اُس کا لباس تار تار کر کے تماشہ لگاتے ہیں اِسی طرح سڑکوں پر اگر کوئی لڑکی رکشے پر نظر آجائے تو پاس سے گزرنے والے اوباش جوان اُس رکشے پر حملہ کر کے اپنی جنسی درندگی کا مظاہر ہ کرتے ہیں یہ کون لوگ ہیں کہاں سے آتے ہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسے شرمناک واقعات کا ظہور بڑھتا ہی جا رہا ہے معاشرے کا بانجھ پن اور بے حسی کا خوفناک نظارہ پچھلے ماہ جنوری کی 7تاریخ کو کوہ مری میں دیکھنے میں آیا جب برف باری اپنے عروج پر پہنچی اور پھر درندگی اور حیوانیت کے جو واقعات سامنے آئے کہ انسانیت کانپ اٹھی برف باری کا آغاز ہوا تو پورا پاکستان لشکروں کی صورت میں کوہ مری پر حملہ آور ہو گیا وہ شہر جس میں دس ہزار گاڑیوں کے داخلے اور پارکنگ کی سہولت تھی۔

اُس شہر پر ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں نے یلغار کر دی ہماری قوم کی بے ترتیبی کا احمقانہ منظر سب نے دیکھا یہ نہیں دیکھا شہر میں پہلے کتنے لوگ جا چکے ہیں ہماری گاڑیاں اِس قابل ہیں کہ نہیں کہ برف باری والی سڑک پر چل سکیں ہمارے پاس وہ لباس ہیں کہ نہیں بلکہ دیکھا دیکھی پورا پاکستان مری پر حملہ آور ہو گیا جب مقامی لوگوں نے دیکھا کہ مری شہر کی گنجائش سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ لوگ مری میں آگئے ہیں تو انہوں نے اپنی بندوقیں تان لیں کہ شکار نشانے پر آگیا ہے اب بھاگ بھی نہیں سکتا لہٰذا مقامی لوگوں نے بے رحم درندوں کی طرح مری آنے والے سیاحوں کو لوٹنا شروع کر دیا یہاں تک کہ عورتوں نے اپنے زیوارت اتار کر لٹیروں کے حوالے کئے اِس مشکل وقت میں جو دلوں کو چیرنے والا پہلو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ شدید برف باری بہت زیادہ گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا لوگ برف کے جہنم میں پھنس کر رہ گئے ٹریفک نظام کے ساتھ برف ہٹانے والا محکمہ بھی منجمند ہو کر رہ گیا۔

انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لینے لگی لوگ بے یارو مدد گار کھلے آسمان نے نیچے مسلسل برف بناری میں زندگی کی بازی ہارنے لگے جب لوگ بے یارو مدد گار زندگی کی بازی ہار رہے تھے کوئی ان کا مدد گار پوچھنے والا نہ تھا حکمران طبقہ جو دن رات اپوزیشن کو لتاڑنے میںمصروف رہتا ہے جو ہر وقت تقریروں کی جگالی میںلفظوں کی جادوگری میںایک دوسرے کو نیچے دکھانے میں توانائی صرف کرتا ہے وہ بھی آرام دہ بستروں میں غفلت کی نیند سو رہے تھے جب انسان برف کے جہنم میں دفن ہو رہے تھے اُس وقت اگر ریاست مدینہ کے دعوے دار صرف ایک کال کر کے مری انتظامیہ کو حرکت یا خبر دار کر دیتے تو آج وہ بیچارے ہمارے درمیان زندہ ہو تے لیکن دن رات تقریروں وعدوں لفظوں کو استعمال کرنے والے ایک کال نہ کر سکے کو چہ اقتدار کے مکین اپنے اقتدار کی کرسی کو پکا کر نے اور اپوزیشن کو ہرانے کے منصوبوں میں اپنی توانائی خرچ کرتے رہے اگر وہ ایک کا ل کر کے انتظامیہ کو الرٹ کر دیتے تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا کوچہ اقتدار پر قابص ٹولہ دن رات اپنی مداح سرائی میں راگ الاپتا رہتا ہے ہر بات پر بہانہ کہانی ڈرامہ بازی الزام تراشی اُن کے پاس تیار جواب ہے کہ جب لوگ مری میں وطن عزیز کے کسی بھی حصے میں بے یارو مدد گار موت کی وادی میں اُتر رہے ہوتے ہیں اُس وقت اگر اپنی مداح سرائی یا اپوزیشن پر گالی گلوچ کی بجائے ایک کال کر کے حکومتی مشینری کو الرٹ کر دیں تو بہت سارے انسانوں کی جانیں بچ جائیں لیکن بے حس حکمران ایک کال کی بھی زحمت نہیں کرتے یہ لوگ بھول جاتے ہیں روز محشر اِن مظلوموں کی جانوں کا حساب لیا جائے گا۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org