کُرسی ! ہنوز دلّی دور است

PM Pakistan

PM Pakistan

وزیراعظم کی امیدواری کا مسئلہ تو بس ایسا کہ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو برسوں یہ خالی سیٹ کو پُر ہونا ہی ہے بشرطیکہ مارشل لاء کی راہ درمیان میں حائل نہ ہو۔ ہمارے یہاں کے چند لیڈروں نے اس کرسی سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں جبکہ ابھی ”ہنوز دلّی دور است” ۔ یہ وہ چیونٹی جیسی سیٹ نہیں ہے جو ہاتھی کے سونڈھ میں گھس کر اسے زیر کر لے۔ اور نہ ہی جادوئی چھڑی سے اس کرسی تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اب رہا سوال کہ اُس کُرسی تک کیسے پہنچا جائے تو بھائی آسان حل تو یہی ہے کہ کسی اُڑن کھٹولے پر بیٹھ جائو تو یقینا اسلام آباد کے تخت حکومت تک پہنچا دے گی۔ ورنہ تو میدان کھالی ہے اور انتخابات میں چند ہی روز رہ گئے ہیں۔

دعا کریں کہ خیر و آفیت کے ساتھ یہ الیکشن ہو جائے جو کہ بظاہر لگ نہیں رہا ہے۔ ویسے بھی شفاف الیکشن کا صرف شور ہی ہے شفافیت میں یقینا کچھ نہ کچھ کالا ہے جس کی پردہ داری ہو رہی ہے۔ اس وقت جو کشا کش جاری ہے وہ بھی کُرسی کے لئے ہے اور عوام کی اکثریت کو اس بات سے قطعی دلچسپی نہیں ہے کہ یہ کُرسی کس فرد کے نام کی ہے انہیں تو صرف اتنا پتہ ہے کہ اس کرسی پر جو بھی بُرا جمان ہو وہ دیانت دار ، امانت داراور عوامی بھلائی کرنے والا ہو۔ ایک اور نقطہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ یہ کُرسی حاصل کرنے کی تگ و دُو تو ضرور کریں مگر ملک میں انصاف کا بھی بول بالا کروائیں۔

یہاں ہر ادارہ آزاد ہے ، تو پھر اس کُرسی کا کیا فائدہ! جس پر بیٹھ کر سوائے عالیشان محل میں رہنے کے اور ملکوں ملکوں دورے کرنے کے اس کرسی کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ پانچ سالوں تک یہی تو ہوتا آیا ہے۔ جو لوگ ملک کو ترقی کی شاہراہوں پر گامزن کرتے ہیں انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں اور جو لوگ جعلی ڈگری کیس میں پکڑے جا چکے ہیں اور پانچ سال تک عوام کو اپنی شکل تک نہیں دکھایا انہیں پھر سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہماری تو اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس ملک پر اور اس ملک کے عوام پر اپنا خاص فضل و کرم رکھیئے گا وگرنہ یہاں تو اس بے بس و لاچار عوام کی سننے والا کوئی نظر نہیں آتا۔اسی لئے اکثر و بیشتر محفلوں میں جب سیاست کا ذکر چِھر جائے تو لوگ یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ”نہ چھیڑ قصۂ الفت بڑی لمبی کہانی ہے۔”یوں یہ بات بہت چھوٹی لگتی ہے مگر ہے غور طلب۔

Load Shedding

Load Shedding

اس کُرسی پر بیٹھنے والے شخص کو ہر اعتبار سے صادق اور امین ہی ہونا چاہیئے نہ کہ اس کُرسی پر بُرا جمان ہوکر کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اوربے امن و امان جیسی لعنت کو فروغ دینا چاہیئے جس سے نہ صرف ملک بلکہ دنیا بھر میں ہمارے پاک ارضِ وطن کی رسوائی ہو۔ دنیا آج ہم پر ہنس رہی ہے کہ ہم سب آپسی لڑائیوں میں کس طرح گتھم گھتا ہوئے پڑے ہیں ۔ انہی لڑائیوں کی وجہ سے اس کُرسی پر بیٹھنے والا اگر نیک نیتی سے کوئی کام کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا کیونکہ اسے آپسی لڑائیوں کو سلجھاتے سلجھاتے وقت گزر جاتا ہے اور یوں آپ خود دیکھ رہے ہیں ملکی اداروں کا کیا حال ہے ، زیادہ تر ادارے خسارے میں ہی ہیں، اور اکثر اداروں کے پاس تو ملازمین کو تنخواہ دینے کے پیسے بھی دستیاب نہیں ہیں۔

پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل ان اداروں کا تو جنازہ نکل چکا ہے مگر کسی میں اتنی جرأت نہیں ہو رہی کہ وہ ان اداروں سمیت دیگر اداروں کی داد رسی کرے۔ حتیٰ کہ اب تعلیمی اداروں میں بھی خسارے کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ تمام باتیں پڑھ کر فراموش کر دینے والے نہیں ہیں بلکہ اس کے لئے ہمارے ارباب کوئی ٹھوس فیصلہ اور کوئی ٹھوس حکمتِ عملی وضع کریں تاکہ مستقبل میں اداروں کو کوئی زِک نہ پہنچے۔اب ذرا آج کے منظر نامے پر آتے ہیں تو بہت سارے بہن بھائیوں کو اس بات پر سخت تامل ہے کہ آخر یہ لوگ کس طرح ملک میں تبدیلی لانے کی باتیں کر رہے ہیں۔

میں یہاں نام کو صیغۂ راز میں رکھتے ہوئے کچھ حقائق بیان کرتا ہوں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ فیگرز بھی مجھے ایس ایم ایس کے ذریعے ایک سیاسی جماعت کے کارکن نے دوسری سیاسی جماعت کے سربراہ کے سلسلے میں بھیجاہے لیکن کافی Interesting Figuresہیں (سچ اور جھوٹ کا علم نہیں)اُس ایس ایم ایس کے خد و خال کچھ ایسے ہیں ایک شخص 1980ء تا 1985ء فنانس منسٹر، 1985ء تا 1990ء چیف منسٹر، 1990ء تا 1993ء پرائم منسٹر آف پاکستان، 1997ء تا 1999ء پھر پرائم منسٹر آف پاکستان، اب اگر اتنے عرصے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اب یہ کس طرح تبدیلی لائیں گے، اس کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ سب لولی پاپ ہے۔راقم کے خیال میں عوام سب کچھ دیکھ اور سمجھ رہے ہیں اور یقینا فیصلہ گیارہ مئی کوہی ہونا ہے ، لہٰذا میں اور آپ سب انتظار کرتے ہیں اُس وقت کا کہ جب فیصلہ آئے گا اور دیکھنا یہ ہے کہ مطلوبہ کُرسی کا قرعہ کس کے نام نکلتا ہے۔

Politicians

Politicians

میں تو یہاں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جو بھی شخص اس کُرسی کی زینت بنے اسے کم از کم اس کُرسی کے وقار اور رُتبہ کا خیال ضرور رکھنا چاہیئے۔ سیاسی رقابت اپنی جگہ مگر احتساب کے نام پر پینڈورا بکس کھولنے کے بجائے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا چلن اس کرسی کے مکین کو آنا چاہیئے پھر یقینا سب کچھ درست سمت میں آ سکتا ہے۔ ورنہ احتساب کا رُجحان ہمارے معاشرے اور ہماری سیاسی فضا کو نہ صرف تخریب کی طرف گامزن کرے گا بلکہ نئی نسل اپنے آپسی رشتوں کو مجروح کرنے کے در پہ آجائیں گے۔ اور جو لوگ سیاست میں نووارد ہیں وہ بھی ایک آزمودہ، پختہ اور تجربہ کار سیاست دان بننے کی کوشش کریں تاکہ ملک میں ترقی کی فضا کو فروغ مل سکے۔

عوام کے درمیان رہنا اور ان میں اپنے آپ کو بھی اُجاگر کرنا یہ اچھی بات ہے مگر ان کے مسائل کو حل کرنا بھی اس کرسی کے مکین کو اپنا ایمان بنا لینا چاہیئے۔ امن قائم کرنے کے لئے ضروری اقدامات فوری توجہ طلب ہیں تاکہ ملک کے لوگوں کو آزادی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ آمد و رفت میں کوئی دقت پیش نہ آئے جیسا کہ آج کل ہر جگہ تعصب کی وجہ سے یہی ہو رہا ہے کہ لوگ کہیں جاتے ہوئے بھی سو بار سوچتے ہیں کہ جانا چاہیئے کہ نہیں۔کُرسی کا نشہ تو ایسے بھی عقل کو اندھا کر دیتا ہے اور جب کوئی شخص اس کُرسی پر بُراجمان ہوتا ہے تو پھر وہ بھی سب کچھ بھول جاتا ہے کیونکہ اس پر بھی نشہ حاوی ہو جاتا ہے۔ اور نشہ تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ چاہے وہ کُرسی کا ہی کیوں نہ ہو انسان کو بہکا دیتی ہے۔ اور پھر بندہ اس نشے میں چور ہوکر اپنے آپ کو ہی بھولنے لگتا ہے تو پھر عوام کی خیر خبر کا اسے کہاں ہوش رہے گا۔

اللہ رب العزت ایسے نشے سے آئندہ آنے والے وزیراعظم کو محفوظ رکھے اور اس کے دل میں خوفِ خدا بھی رہے تاکہ وہ کُرسی کا بے جا استعمال نہ کرے۔ ویسے بھی کُرسی آنے جانے والی شئے ہے۔ ایک بار اگر آپ بیٹھ گئے تو آپ کو دوبارہ اس پر بیٹھنے کی خواہش ضرور ہوگی اس لئے اس کُرسی پر بیٹھ کر ایسے کام سر انجام دیں کہ عوام دوبارہ آپ کو اس کُرسی پر بٹھا دیں۔

اور یہ سب کچھ جبھی ممکن ہوگا جب آپ حلف لیتے ہی مہنگائی ، بے روزگاری، بے امن و امانی، لوڈ شیڈنگ جیسی لعنتوں پر فوری کاروائی کریں گے۔اختتامِ کلام بس اتنا کہ ہم سب کی دعا ہے کہ آنے والا وزیراعظم ملکی تقدیر بدلنے والا ہو۔ اور کُرسی کا دلداہ نہ ہو بلکہ کُرسی کا اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہو۔ عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتا ہو، جس طرح ووٹ کے لئے عوام سے ملتے ہیں اُسی طرح سیٹ پر بیٹھنے کے بعد بھی عوام کو یاد رکھنا ان کے فرائض میں شامل ہونا چاہیئے۔
تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی