چوہدری اسلم کی شہادت اور کراچی

Chaudhry Aslam

Chaudhry Aslam

نانا پاٹیکر، سلمان خان اور اور رجنی کانت نے خواب میں بھی ایسا ان کونٹر سپیشلسٹ نہیں دیکھا ہو گا جیسا ہمارا چوہدری تھا۔ لٹھے کی سفید شلوار قمیض پہنے، آستین چڑھائے، ایک ہاتھ میں سگریٹ دوسرے ہاتھ میں پستول تھا اپنے جانثاروں کی معّیت میں وہ چیتے کی سی جست لگا کر پولیس موبئل سے نمودار ہوتا تو مجمع سہم کر تتر بتر ہو جاتا۔ مجرم گیدڑوں کی مانند دْم دبا کر بھاگتے۔

مْخبر اور ہائیکر ڈر کر دیواروں سے چپک جاتے۔ دہشت گردوں، ٹارگٹ کلروں، طالبانوں اور سیاسی جماعتوں کے مسّلح گروپوں کے پانچ قاتلانہ حملوں کے باجود وہ بلا خوف و خطر مجروں کو چیڑ پھاڑ دینے کے لیے بھوکے شیر کی مانند مسلسل دھاڑ رہا تھا۔

دہشت گرد دہشت زدہ ہو چکے تھے۔ ان کے پاس ایک ہی حربہ بچا تھا جو انہوں نے استعمال کیا۔ اندر سے کوئی قریبی بد نسل ڈھونڈا۔ گمنام کال کر کے اسے باہر بلوایا اور بارود سے بھری وین اسکی گاڑی سے ٹکرا کر عزم و ہمت کی چٹان کو پارہ پارہ کر دیا۔

ایس ایس پی سی آئی ڈی کراچی چوہدری محمد اسلم کی خود کش حملے میں شہادت سے کراچی لاوارث ہو گیا۔ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے تیسرے مرحلے کو کامیاب بنانا ہے تو سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہو کر پوری دیانتداری سے سراغ لگانا پڑے گا۔

چوہدری اسلم کو کس نے منظر سے ہٹایا، ورنہ کراچی کی انتظامیہ تیار رہے، کیونکہ 92 کے کراچی آپریشن کی تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرائے گی جس میں آپریشن کے خاتمے کے بعد آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس آفیسروں اور نیم فوجی اداروں کے اہلکاروں کی % 90 تعداد کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

92 اور 96 کے آپریشنز میں چوہدری اسلم نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ چوہدری اسلم کا اصل نام محمد اسلم خان تھا۔ وہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے تھے۔ لباس چال ڈھال کے علاوہ خوف یا احتام کی وجہ سے ان کا نام چوہدری اسلم پڑگیا تھا۔

1984 سے سندھ ایزرو پولیس میں اسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی ہونے سے ایس ایس پی بنے 3 تک ان کا زندہ رہنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ ایم کیو ایم ۔ اے این۔پی تحریک طالبان۔ لشکر جھنگوی اور لیاری کے متحارب جرائم پیشہ گروپوں سمیت لیاری سے وزیرستان تک بہت سے لوگ اْنھیں مردہ دیکھنا چاہتے تھے۔

دلیر ایس ایس پی کی بیوی بھی انتہائی نڈر اور دلیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے آج تک اْنھیں خوفزدہ نہیں دیکھا۔ چوہدری اسلم کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے نے 100 سے زائد خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔

Terrorists

Terrorists

جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کی نشاندہی اور گرفتاری پر حکومت کی جانب سے انھیں اب تک 9 کروڑ کا انعام مل چکا تھا جو دنیا کے کسی پولیس افسر کو آج تک نہیں ملا۔ وہ دن رات خطروں سے کھیلتے تھے، وقتا فوقتا سکیورٹی کے پیش نظر اپنی رہائش گاہ بدلتے رہتے تھے۔

اْن کی آخری خواہش تھی کہ اگر وہ اس دنیا میں نہ رہے تو ان کے بیوی بچوں کو پاکستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں منتقل کر دیا جائے۔ تاکہ تعلیم و تربیت سے مسلح ہو کر وہ پاکستان آئیں اور ملک کی خدمت کریں 2011 میں ان کی ڈیفنس والی رہائش پر خوفناک دہشت گرد حملہ ہوا تو وہ غم و غصّے سے بپّھر گئے۔

صحافیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے حملہ آوروں کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا۔ ,, تمہاری نسلیں بھی یاد رکھے گی کہ کس شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا ہے۔

مرد کے بچے ہو تو سامنے آکر حملہ کرو، میں کراچی کی سڑکوں پر بلٹ پروف گاڑی کے بغیر گھومتا ہوں ماں کا دودھ پیا ہے تو سامنے آؤ ،، پاکستانی عوام کسی بھی پولیس والے کی موت پر آج تک یوں نہیں روئی۔

میران شاہ میں پنجابی طالبان کے سربراہ بدر منیر نے چوہدری اسلم سمیت چھ پولیس افسروں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ طالبان کے اس فیصلے کی کاپیاں صدر وزیراعظم اور سکیورٹی کو بھی بھیجی گئیں۔

چوہدری اسلم فرض کی ادائیگی میں وطن پر جان نچھاور کر گئے لیکن وسیم احمد ccpo۔ سعود مرزا ccpo۔ محمد فیاض خان ssp۔ فاروق اعوان ssp۔ زوجہ عمر خطاب ssp کو یقین دلایا جانا چاہیے کہ ان کے ساتھی پولیس آفیسر کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے حکومت سنجیدہ ہے۔

چوہدری اسلم پر حملے کا مقدمہ بظاہر تو طالبان سربراہ ملا فضل اللّہ اور ترجمان شاید اللّہ شاہد کیخلاف درج کیا گیا ہے لیکن کیا حملے سے قبل آنے والی کال کی تصدیق کی گئی ہے۔ چوہدری اسلم اتنے اناڑی تو نہیں تھے کہ ایک نا معلوم فون کال پر بغیر بلٹ پروف گاڑی پر روانہ ہو جاتے۔

لیاری گینگ وار کے جرائم پیشہ افراد، انتہا پسند مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے 180 ٹارگٹ کلر اور 13 ہزار سے زیادہ ملزم گرفتار کرنے پر کون ان کی جان کا دشمن بن گیا تھا۔ صرف طالبان کو ذمہ دار ٹھرانا کسی سازش کا حصہ تو نہیں؟ اسلم چوہدری کے لیے ستارہ شجاعت کی سفارش تو کر دی گئی ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ کیا ان کے ادھورے مشن کو آگے بڑھایا جائے گا یا کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا جائے گا؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ بھی دہشت گردوں کے لیے سینیئر پولیس آفسروں کو نشانہ بنانا ایسے ہی آسان ہو گا؟

Wasim Raza

Wasim Raza

تحریر: وسیم رضا (بولزانو)