چینی جاسوس نے منحرف ہو کر بہت سے اہم ملکی راز اگل دیے

China - Australia

China – Australia

چین (اصل میڈیا ڈیسک) ایک چینی جاسوس نے رواں برس مئی میں منحرف ہونے کے بعد خود کو آسٹریلیا کے انسداد جاسوسی کے ادارے کے حوالے کر دیا تھا۔ اس جاسوس نے چینی حکومت کے تائیوان اور ہانگ کانگ کے بارے میں مختلف منصوبوں کی تفصیلات بتا دی ہیں۔

آسٹريلوی ميڈيا نے دعویٰ کيا ہے کہ ايک چينی جاسوس نے کئی اہم راز افشا کر ديے ہيں۔ آسٹریلین میڈیا کے نيٹ ورک نائن کے ایک اخبار سڈنی مارننگ ہیرالڈ نے اپنی ہفتہ تیئیس نومبر کی اشاعت میں اس جاسوس کے منحرف ہو جانے سے متعلق تفصیلات جاری کیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس جاسوس نے بيرونی ممالک ميں جاسوسی سے متعلق چينی کارروائیوں اور ہانگ کانگ ميں سينئر فوجی افسران کی شناخت کے بارے ميں حساس معلومات آسٹريلوی ايجنسی کو فراہم کيں۔

يہ ایسا پہلا چينی جاسوس ہے، جس نے اپنی شناخت ظاہر کر کے ملکی راز افشا کيے ہيں۔ آسٹریلوی میڈیا کے مطابق اس منحرف جاسوس کا نام وانگ لیچیانگ ہے اور اس کی عرفیت ولیم ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ چین کس طرح تائیوان کے سیاسی حکومتی نظام میں مداخلت کر کے اس پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔

وانگ لیچیانگ سیاحتی ویزے پر اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ آسٹریلیا گیا ہوا تھا اور وہاں اُس نے خود کو آسٹریلیا کی انسداد جاسوسی کی ایجنسی کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ اس وقت سڈنی میں ہے۔ اس نے آسٹریلیا میں سیاسی پناہ کی درخواست بھی دے دی ہے۔ اسے ڈر ہے کہ واپس چین جانے کے بعد بیجنگ میں حکام اسے تحویل میں لے لیں گے اور مبینہ حکومتی راز افشا کرنے کے الزام میں اسے موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

اس منحرف چینی خفیہ اہلکار نے آسٹریلوی حکام کو بتایا کہ وہ خود بھی جاسوسی کی کئی کارروائیوں میں شریک رہ چکا ہے۔ چینل نائن کو انٹرویو دیتے ہوئے وانگ لیچیانک نے واضح طور پر کہا کہ اگر وہ چین واپس چلا گیا تو اُسے یقینی طور پر مار دیا جائے گا۔ لیچیانگ نے ہانگ کانگ میں اُس چینی سرمایہ کاری کمپنی میں ملازمت کی تھی جو اس خصوصی انتظامی علاقے میں بنیادی طور پر جاسوسی کے لیے قائم کی گئی تھی۔

سڈنی مارننگ ہیرالڈ کے مطابق آسٹریلوی وزیر خزانہ جوش فریڈن برگ نے اس چینی جاسوس کے انکشافات کو ‘پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔ جوش فریڈن برگ نے یہ بھی واضح کیا کہ چینی جاسوس کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور کیے جانے کے حوالے سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

فی الحال بيجنگ حکومت نے اس پيش رفت پر اپنی طرف سے کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا۔