اس بار شہر قائد امن مانگ رہا ہے

Zulfiqar Cheema

Zulfiqar Cheema

شہر قائد میں ہونے والی بد امنی پر ہم ایک بار پھر مصلحتوں کا شکار ہوئے اور ذوالفقار چیمہ کا نام بطور آئی جی سندھ ڈراپ کر دیا کیا سیاسی مفادات کی اُڑتی راکھ پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا رہے گا 95ء کے آپریشن میں جن پولیس اہلکاروں نے شہر قائد کو امن کا تحفہ دیا اُن کی لاشیں گرنے کا تسلسل چلا تو 400 لاشیں گریں اور وقت کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی کیا پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو کوئی انصاف مل پایا؟ ایک اُمید بندھی ہے کہ اُن کے کیسز کھلے جائیں گے چوہدری نثار اس بار شہر قائد کا امن لوٹانے میں سنجیدہ ہیں خدا کرے ایسا ہو حکیم سعید جیسے بے ضرر اور محب وطن افراد، غازی صلاح الدین جیسے لفظوں کی آبرو کے محافظ شہدا کا لہو خراج مانگتا ہے۔

غازی صلاح الدین کا قتل، جرم بے گناہی میں صحافت کی آبرو کا قتل تھا ولی محمد بابر کی شہادت کے سوال کی گتھیاں کھلتی جا رہی ہیں کہ کس طرح اُن کے گواہوں پر خون کی لکیر کھینچ دی گئی اور میڈیا تو ہمیشہ کا لاتعلق ٹھہرا کہ اُس کی زبان پر بھی قفل لگے ہوئے ہیں مگر اب تو ہر لمحہ ثبات چاہتا ہے ورنہ لمحوں کا قرض صدیوں کو چکانا پڑتا ہے جس بے گناہ لہو کو مقتل میں چھپانے کا جرم تسلسل سے کیا گیا وہ آج کوچہ و بازار میں آنکلا ہے اور نصیراللہ بابر بخدا اُس مرد مجاہد نے شہر کو امن کا تحفہ دیا عرصہ پہلے شہر قائد سے لوٹنے والے ایک دوست سے جب شہر قائد کے حالات پر بحث ہوئی تو کہا کہ کراچی کی دیواروں پر جہاں بے گناہ اور معصوم شہریوں کے خون کے چھینٹے نظر آتے ہیں وہاں یہ نعرہ بھی دیواروں پر لکھا نظر آتا ہے۔

خوجہ آصف سچ کہتا ہے کہ شہر کو کینسر کا مرض لاحق ہے جس شہر میں 33 ہزار درندے دندناتے پھر رہے ہوں، قبضہ گروپ روزانہ 30 کروڑ وصول کرتے ہوں پانی کے ٹینکرز 10 کروڑ اغواکار 5کروڑ، 55 ہزار غریب ٹھیلے والوں سے روزانہ 82 لاکھ جگا ٹیکس وصول ہوتا ہو، 15 ہزار جوئے کے اڈے 15 کروڑ روزانہ پر چلتے ہوں، اڑھائی کروڑ کی گاڑیاں چوری ہوتی ہوں الغرض جس شہر کی شہ رگ پر ہاتھ رکھ کر غنڈے 83 کروڑ روپے روزانہ وصول کرتے ہوں وہ شہر کینسر زدہ ہی ہوتا ہے مہاجر کیپ کے رہنے والے حسن جو اب لیہ کے نواحی شہر کا باسی ہے کا دکھ بھی یہ ہے کہ ایک روز غنڈوں نے چار لاکھ کا تقاضا کیا اور دوسرے روز آنے کا کہہ گئے مرتا کیا نہ کرتا معصوم بچوں کی جان جانے کے خوف سے دوسرے روز اُن کے تقاضے کو پورا کیا۔

Elections

Elections

کئی روز کے بعد غنڈے پھر آدھمکے اس بار اُن کا تقاضا 20 لاکھ کا تھا اور ساتھ ہی یہ دھمکی کہ اگر کل تک پیسوں کا بندوبست نہیں کر سکتے ہو تو یہ بنگلا خالی کر دینا اب حسن اُن کو بیس لاکھ دینے کے قابل نہ تھا رات کے کسی پہر وہ اپنی محنت کی جمع پونجی سے بنائے مکان اور اُس میں پڑے سامان کو چھوڑ کر چوک اعظم چلا آیا اور آج نہ اُس کا کاروبار ہے وہ کرائے کے مکان میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے صفدر مزدوری کی خاطر شہر قائد گیا اور اُس کی لاش واپس آئی 1978ء میں ملک کی سب سے بھیانک اور خونریز آمریت کی کوکھ سے جس پارٹی نے جنم لیا اُس کی بنیاد جس سیاسی پس منظر میں بنی وہ 1972ء کے بعد کراچی میں مزدور تحریک کی پسپائی تھی جس میں پشتون، پنجابی، سندھی اور دوسری قومیتوں کے مزدوروں کو ایک انقلابی منزل نہ مل سکنے کی بنا پر اُن کی یکجہتی کو توڑا گیا۔

زہر ناک فضا پیدا کرنے کے بعد ایک آمر نے قومی جسد میں ایک اور زہریلا انجکشن غیر جماعتی انتخابات کا پیوست کیا جس نے قوم کی منتشر ہوتی ہوئی سوچ کو مزید ٹکڑیوں میں بانٹا 92 کے فوجی آپریشن پر اعتراض اُٹھانے والے یہ بھول گئے کہ اُس آپریشن میں سول عدالتوں پر دبائو ڈال کر مجرموں کو ریلیف دلایا گیا اگر اُس وقت ملٹری کورٹس ہوتے تو حالات آج یہ حالات نہ ہوتے اور میاں نواز شریف نے تو سندھ کے دیہی علاقوں میں سیاسی بنیادوں پر آپریشن کا مشورہ جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم کو دیا مگر اُن کی بصیرت نے بھانپ لیا کہ اصل خرابی شہر قائد میں ہے اور مسائل کا جنمیہیں سے ہو رہا ہے اور جب پاک آرمی نے شہر قائد میں اُس وقت کے اور آج کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اقتدار میں حلیف جماعت کے خلاف آپریشن شروع کیا۔

Mian Nawaz Sharif

Mian Nawaz Sharif

تومیاں نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے افواج پاکستان کے”ٹاپ براس اس بات پر بھی نالاں تھے کہ اُس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان بھی انسانیت کے قاتلوں کو بچانا چاہتے تھے کیونکہ وہ اپنے داماد عرفان اللہ مروت کو بچانا چاہتے تھے جن کے بارے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کہا تھا کہ ”پاکستان میں ساری گڑ بڑ سسر اور داماد کی وجہ سے ہے جام صادق کی حکومت کے ”غیر منتخب مشیر”نے سندھ پولیس میں غیر قانونی طور پر 214 سب انسپکٹرز اور سات جونیئرز ایس پیز کو ڈی آئی جی بنوایا کیا ایسے افراد قانون کی گرفت میں اس بار آئیں گے ؟کراچی کی شاہرات پر ابھی تو 12 مئی کے خون کے چھینٹے خشک نہیں ہوئے کیا۔

موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے استقبال کیلئے شاہرات پر اُس روز نکلنے والے معصوم اور بے گناہ افراد کے قاتلوں کا تعین ہوسکا؟ موجودہ اٹارنی جنرل منیر اے ملک کے گھر پر دھاوا بولنے والے عناصر کون تھے 11 ستمبر 2012ء کو ایک فیکٹری میں 290 جانیں جل کر راکھ ہو گئیں مگر مجرمانہ حکمرانی کو جواز بخشنے والے حکمران ”گڈ گورنس ”کا راگ الاپتے رہے بے شرمی سے واقعے کی تاویلیں اور جواز گھڑے گئے یہ سب کچھ 85ء کے بعد ہوا 85ء سے قبل قومی جماعتوں کا کردار قابل ستائش تھا قائد کا شہر، روشنیوں کا شہر، زندگیوں کا شہر اور راحت کدہ تھا جہاں امن و سلامتی تھی، روزگار کا ماحول تھا، گہما گہمی تھی، رونقیں تھیں، صلح و اشتی تھی، خوشحالی تھی، اُجالا تھا، اسمبلیوں میں حق کی للکار تھی، تعلیم گاہیں تھیں ،عافیت تھی، کاروباری آزادی تھی۔

،مسلم قومیت تھی اور جب شہر پر لسانی سیاست کا تسلط ہوا وہی شہر اب دھواں اور دھماکوں کا شہر ہے، لاشوں کا شہر ہے، امن و سلامتی کی جگہ دہشت گردی نے لے لی، جہاں روزگار کا ماحول تھا وہاں روز گار کے مواقع مفقود ہو گئے، صلح و آشتی کی جگہ جھگڑا و فساد آگیا، گہما گہمی اور رونقوں کی جگہ کرفیو کا سناٹا چھا گیا، خوشحالی کی جگہ بھتہ خوری، اُجالے کی جگہ اندھیرے نے لے لی، راحت کدے ٹارچر سیلوں میں بدل گئے، تعلیم گاہیں مقتل گاہیں بن گئیں، گرفتاریوں کے خوف سے اسمبلیوں سے فرار ہونے لگا، عافیت کی جگہ ڈاکے آگئے کاروباری آزادی کی جگہ اغوا ء لوٹ مار، مسلم قومیت کی جگہ نسلی عصبیت نے تسلط جما لیا۔

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر : ایم آر ملک