کورونا وبا کے بعد پاکستان کا کونسا بزنس کس حال میں ہو گا؟

Market

Market

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں اقتصادی ماہرین آج کل اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کورونا وبا کے ختم ہو جانے کے بعد ملک کے اندر کونسا کاروبار چمکے گا اور کیا پاکستان بین الاقوامی منڈی میں اُبھر کر سامنے آ سکتا ہے؟

بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا بحران کے بعد پاکستان کے زیادہ تر کاروبار بہتری کی جانب جائیں گے بلکہ بھارت میں کورونا کی شدت کی وجہ سے اور چین سے بعض صنعتوں کی بیرون ملک منتقلی کی وجہ سے، جو بین الاقوامی سپلائی چین متاثر ہوئی ہے، اس وجہ سے بھی بہت سے ایکسپورٹ آرڈرز پاکستان کو ملنے کا امکان ہے۔ کورونا کے بحران نے کئی پاکستانیوں کے لیے نئے کاروباری مواقع بھی پیدا کر دیے ہیں۔ اگر حکومتی پالیسیاں درست رہیں تو اس بحران کے بعد پاکستان کی کاروباری برادری بہتر نتائج حاصل کر سکے گی۔

اقتصادی ماہر اور سینئر تجزیہ نگار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت اور چین سے منسوخ ہونے والے برآمدی آرڈرز پاکستان کو ملنے کا امکان ہے۔ اس لیے ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات اور کئی دیگر اشیا کی ایکسپورٹ میں جو بہتری دیکھی جا رہی ہے، آنے والے دنوں میں اس رجحان کے برقرار رہنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”موجودہ حکومت نے کچھ عرصہ پہلے بڑے سرمایہ داروں کے لئے جن مالیاتی رعایتوں کا اعلان کیا تھا، ان کی وجہ سے سے بھی نئی انڈسٹری لگ رہی ہے، کچھ لوگ اپنی صنعتوں کو وسعت دے رہے ہیں اور کچھ اپ گریڈ کر رہے ہیں۔ اس کے ثمرات بھی اگلے آٹھ دس مہینوں میں دیکھنے کو ملیں گے۔‘‘

خالد رسول بتاتے ہیں کہ خوش قسمتی سے پاکستان کا زرعی سیکٹر کورونا کی وبا سے متاثر نہیں ہوا تھا، اس میں مزید بہتری کی توقع ہے۔ اس سال شوگر ملوں نے مڈل مین کے بغیرکاشت کاروں کو بہتر ادائیگیاں کی ہیں، گندم کے کاشتکاروں کو بھی فصل کا بہتر معاوضہ ملا ہے، جس سے دیہاتوں میں پیسہ گیا ہے۔ کاشت کاروں کی طرف سے اس پیسے کے استعمال سے ملکی معیشت کے کئی شعبوں میں بہتری آئے گی۔

خالد رسول سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے ہاؤسنگ اور تعمیراتی صنعتوں کو ملنے والی مراعات کے بعد ان سیکٹرز میں بھی مزید بہتری آنے کا امکان ہے۔ ان کے خیال میں ریٹیل سیکٹر، ہیلتھ اور اس سے متعلقہ سیکٹرز میں بھی سرکاری اور نجی سطح پر مزید سرمایہ کاری ہو گی اور اس میں بہتری آئے گی۔

بعض ماہرین کے مطابق کورونا کے بعد بھی صارفین اپنی سیفٹی اور صحت مندانہ طرز زندگی سے متعلقہ اشیا پر زیادہ خرچ کریں گے لیکن وہ پرتعیش اور مہنگی اشیا کی طرف جانے سے ذرا گریز ہی کریں گے۔ ایونٹ مینجمنٹ کا کام بھی ورچوئل تقریبات کی وجہ سے فوری طور پر نہیں اٹھ سکے گا۔ ان کے مطابق صارفین مہنگے سکولوں کی طرف جانے کی بجائے سستی فیس والے موثر اور بہتر آن لائن سکولوں کو ترجیع دے سکتے ہیں۔

کورونا کے دنوں میں متاثر ہونے والے ٹرانسپورٹ، سیاحت، ہوٹلنگ اور ریسٹورنٹس کے کاروباروں میں بہتری آنے کے کافی امکانات ہیں۔ یاد رہے کہ یورپ اور امریکا کے وہ علاقے، جہاں کورونا کی وبا کی شدت کم ہونے کی وجہ سے پابندیوں میں نرمی آئی ہے، وہاں بھی صارفین کا یہی رجحان دیکھنے میں آیا تھا۔

ایوان صنعت و تجارت لاہور کے سابق صدر الماس حیدر کا بھی خیال ہے کہ کورونا کہ بعد پاکستان میں بزنس کی صورتحال بہت بہتر ہو گی،”آپ میری یہ بات لکھ کر رکھ لیں، جب کورونا کی وبا ختم ہو گی تو مہینوں سے گھروں میں قید، گھٹن کے شکار شہری بڑی تعداد میں باہر نکلیں گے، سفر کریں گے، کھانے کھائیں گے اور سیروسیاحت کریں گے۔ میرا بزنس مینوں کو مشورہ ہے کہ تیاری کر لیں، آج جو بزنس بند ہے، اسے خرید لیں کل اس پر بوم آنے والا ہے۔‘‘

پاکستان میں صرف ایک سال میں سافٹ ویئر کی ایکسپورٹس دگنی ہو چکی ہیں۔ اس وقت ملک میں موبائل فون بنانے والی انیس فیکٹریاں لگ چکی ہیں۔ پاکستان جو اپنے موبائل کا صرف بیس فیصد حصہ خود بنا رہا ہے، اگلے سال اس کا چالیس فیصد حصہ خود بنائے گا۔ پچھلے سال ملک میں دو ملین موٹر سائیکل بنے تھے، اس سال ساڑھے تین ملین بنے ہیں۔ کاروں کی نئی نئی فیکٹریاں لگ چکی ہیں۔ توقع ہے کہ اگر حکومتی پالیسیاں درست رہیں تو ملک میں گاڑیوں کی پیداوار، جو ابھی اڑھائی لاکھ کے قریب ہے، اگلے ساتھ درست حکومتی پالیسی کی صورت میں ساڑھے تین لاکھ سالانہ تک پہنچنے کا امکان ہے۔

پاکستان کے ایک معروف انگریزی روزنامے سے وابستہ اقتصادی امور کے ماہر منصور احمد کہتے ہیں کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو مصنوعات امیر لوگوں کے استعمال میں ہیں، ان میں بہت بہتری آ رہی ہے لیکن غریبوں کے زیر استعمال اشیا میں ویسی بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستان میں پچھلے دس مہینوں میں امیروں کی پسندیدہ لگثرری گاڑیوں کی پیداوار میں چوبیس فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹریکٹروں کی پیداوار پچاس فی صد بڑھی ہے۔ ان کے بقول ٹریکٹر پچیس ایکٹر سے زیادہ رقبہ رکھنے والے لوگ ہی خرید سکتے ہیں جبکہ پاکستان میں ستاسی فیصد کاشت کاروں کے پاس بارہ ایکڑ سے بھی کم رقبہ ہے۔

سیمنٹ کی پیداوار پچیس فی صد بڑھی ہے لیکن پاکستان میں عام آدمی آج بھی اپنا گھر بنانے کی سکت نہیں رکھتا۔ بڑے گھر اور پلازے دھڑا دھڑ بن رہے ہیں۔ عام آدمی چینی کی قطاروں میں کھڑا ہے اور اسے کم قیمت پر آٹا نہیں مل رہا۔ سبزیوں، پھلوں اور مرغی کے گوشت کے ریٹس آپ کے سامنے ہیں۔

منصور احمد کے مطابق حکومت نے، جو معاشی رعایتیں بھی دی ہیں، وہ بھی زیادہ تر بڑے سرمایہ کاروں کو ملی ہیں۔ بجلی پر جو رعایت ملی وہ ایکسپورٹس سیکٹر والے لے گئے۔ اس کا اسی فیصد فائدہ اسپننگ انڈسٹری کو ملا۔ رعایتی نرخوں پر ملنے والے قرضوں کا بڑا حصہ بھی کارپوریٹ سیکٹر نے ہتھیا لیا۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کی انڈسٹری ترقی کر رہی ہے بلکہ دو ہزار اٹھارہ میں یہ جہاں تھی، وہاں سے نیچے آنے کے بعد اب یہ اپنی پرانی پوزیشن پر واپس آ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا،”کووڈ کے بعد پاکستان کے بزنس کی بہتری کا انحصار ملک میں کاروباری آسانی، سیاسی استحکام ، پالیسیوں کا تسلسل اور منصفانہ حکومتی فیصلوں پر ہو گا۔‘‘

ایوان صنعت و تجارت لاہور کے سابق صدر میاں شفقت علی کہتے ہیں کہ کورونا بحران کے دوران صارفین کے خریداری کے رجحانات بدل گئے ہیں۔ اب وہ رش میں جانے کی بجائے آن لائن شاپنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس رجحان کی وجہ سے روایتی دکانوں کے مالکان متاثر ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح آن لائن ادائیگی، آن لائن گیمنگ، آن لائن خریداری، ٹیلی میڈیسن، آن لائن ایجوکیشن اور ورچوئل میٹنگز کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ لوگ بزنس میٹنگ کے لیے ٹریول کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ دوا سازی کی صنعت اور ڈلیوری کی صنعت میں بھی بہتری آنے کا امکان ہے۔ کورونا میں گھر کے واحد کفیل کی جدائی نے بہت سے لوگوں کو لائف انشورنس کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔