بدعنوان کون ہیں۔۔۔؟

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

گزشتہ روز کابینہ کے ارکان اور وفاقی سیکرٹریوں کو ایک لکھے گئے خط وزیراعظم محمد نواز شریف کی طرف سے لکھا گیا۔ کہ موجودہ حکومت کے دور میں کرپٹ اور غیر شفاف طور طریقوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، وفاقی وزرا اور سیکرٹریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اپنے اداروں میں بدعنوان افسروں کو فارغ کر کے اہم عہدوں پر ایماندار اور بے داغ افسروں کو تعینات کریں۔ ایسے افسروں کو بھی ہٹا دیا جائے جو عوام سے غیر دوستانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عوام نے انتخابات میں ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور ان کے پاس اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا آپشن موجود نہیں۔ نظام کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنا ان کی حکومت کے ایجنڈے میں سب سے اہم ترجیح ہے کیونکہ کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی کے خاتمے کے بغیر گورننس میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔

وزیراعظم نے وزرا اور وفاقی سیکرٹریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جانچ پڑتال کر کے کرپشن اور غیر مناسب رویہ رکھنے والے ملازمین کو برطرف جب کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے بدعنوان افسران کے معاہدے منسوخ کر دیں اور ملازمین کو پیشہ وارانہ فرائض بخوبی سرانجام دینے کی ہدایت کریں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق خط میں وزیراعظم نے وزرا سے کہا ہے کہ عوام کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش نہ آنے والے ملازمین کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے گی۔ اہلیت اور دیانتداری کی بنیاد پر ملازمین کی حوصلہ افزائی کی جائے کسی صورت میں شفافیت پر سمجھوتہ نہ کیا جائے کرپشن اور بدانتظامی آخری حد تک ناقابل برداشت ہونی چاہئے۔ کنٹریکٹ افسروں سے معذرت کر لی جائے۔ مہذب دنیا کے دانشو راور جمہوری ادارے ابھی تک کوئی متفقہ نتیجہ نہیں نکال سکے کہ انسان جرم کیوں کرتا ہے۔ وہ قانون شکنی میں کیوں فخر محسوس کرتا ہے۔

اسے کون سی قوت لاقانونیت اختیار کرنے کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے؟ اوراس پر بھی کوئی متفقہ فیصلہ سامنے نہیں آسکا کہ اگر کوئی کوئی فرد جرم کرتا ہے یا قانون توڑ تا ہے توایسے کس قسم سزا دی جانی چاہیے؟کیاسزا سخت ہونی چاہیے جس سے دیگر لوگ عبرت حاصل کریں؟ یااصلاحی طریقے کو اختیار کرنا چاہیے تاکہ وہ ایک اچھا اور مفید شہری بن سکے۔ آخر الز کر کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نفرت انسان کے برے اعمال اور عادات سے ہوسکتی ہے اس سے نہیں۔

Lawyers

Lawyers

لہذا انسان کو احساس دلانا ہی اصل کام ہوتا ہے۔ اول الز کر کے وکیلوں کا موقف ہے کہ جرم کرنے والے انسان کو سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ وہ خود اور دوسرے لو گ بھی اس سے عبرت حاصل کریں۔ ایک محاور ہ ہے کہ چور کو مال کھاتے ہوئے نہ دیکھو مار کھاتے ہوئے دیکھو۔ اس کا مطلب ہے کہ ہیرا پھیری، چوری اور دغا بازی کرنے والوں کی زندگی کو مت سامنے رکھو بلکہ جب یہ لوگ قانون کے شکنجے میں کسے جائیں تواس وقت ان کی حالت دیکھنی چاہیے۔

بحر حال معاشرے میں امن و امان برقراد رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ سزاؤں کا نظام نافذ ہو۔ معاشرے لوگوں سے بنتے ہیں اور اشرافیہ ان کو مہذب اور قانون کا احترام کرنے والے بناتی ہے۔ اسے آجکل انتظامیہ کہا جاتا ہے۔ انتظامی اداروں کے عہد ید اراگر ایمان دار اور فرض شناس ہوں تو حکومت کے اعلیٰ عہدیدار ابھی ان سے لرزتے ہیں اوراپنے فرض ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے۔ امیر تیمورجن کا دمشق سے لے دہلی تک سکہ چلتا تھا اپنی سوانح عمری میں ہوں تیمور میں لکھتے ہیں کہ وہ جب کوئی علاقہ فتح کرتے تو وہاں کا امن وامان کا ذمہ کوتوال کو سونپ دیا جاتا۔ایک عام قانون نافذ تھا جس کے تحت کو توال اور چوکیدار کام کرتے تھے۔ اگر کسی علاقے میں چوری، ڈکیتی،نقب زنی یا راہزنی کی واردات ہوتی توکوال اور چوکیدار کا سر قلم کر دیا جاتات ھا۔ ملازمت پر حاضر ہوتے وقت دونوں عہدیداروں کو بتا دیا جاتا تھا کہ ان کے فرائض کیا ہیں؟۔ اور ان کی غفلت کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ معاشرے ہمیشہ دیانتدار اہل کاروں اور انصاف پسند حکمرانوں کے زیر حکومت ہی ترقی کرسکے ہیں۔

ہم پہلے بھی کئی بار بتا چکے ہیں کہ حکمرانوں کے لیے فلسفہ، منطق یا علم نجوم جاننا ضروری نہیں۔ ان کا دیانتدار اور دلیر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن کروڑوں روپے سکیورٹی پر خرچ کیے جانے باجود پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائندے بھی ہر روز ایسی متعدد دہشت گردی کی وارداتوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ امن وامان دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ عام خیال ہے کہ حکمران اپنے کا رنامے چھپانے کیلئے کسی نئی سوچ میں پڑے ہیں۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ