کرپشن کے شہنشاہ اور ضمیر کی عدالت

Corruption

Corruption

تحریر: حامد قاضی
حکمران فرنینڈس مارکوس نے 1965 میں اقتدار سنبھالا اور 1986 میں رخصت ہو گیا۔اس دوران مارکوس نے کرپشن کے کئی ریکارڈ توڑ کر تاریخ میں اپنا نام محفوظ کر لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوہارتو کی طرح موصوف بھی چند برس تک ملک سنوارنے میں مصروف رہا لیکن پھر پٹری سے اتر گیااور ایسا اترا کہ دوسروں کے لئے عبرت کی مثال بن گیا۔

مارکوس نے اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور اقتدار بحال رکھنے کے لئے پہلا کام یہ کیا کہ رشوت، دھونس اور دھمکی سے خوب کام لیابعد ازاں اس نے ارکانِ اسمبلی کی تجوریاں بھرنے کے بعد آئین میں تبدیلیاں کروائیں۔یوں یہ شق ختم ہو گئی کہ کوئی آٹھ سال بعد دوبارہ صدر بن سکتا ہے۔اقتدار کو دوام بخشنے کے بعد مارکوس اور اس کے عزیز دوست کھل کے کھیلے انھوں نے سرکاری اداروں کا چارج سنبھال لیا۔سودوں میں گھپلے ہونے لگے بینکوں سے قرضے لئے گئے۔سرکاری اداروں کی جائیدادیں ہڑپ کر لیں۔جب ادارے کمزور ہو گئے تو انھیں اونے پونے داموں فروخت کر دیا گیااور ان میں بھی کمیشن لیا گیا۔غرض مارکوس کے قبیلے نے ہر وہ کرپٹ راہ اپنائی جس سے انھیں دولت مل سکے۔اس کے علاوہ نجی سطح پر بھی ہر قسم کے کاروبار میں ان کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی جو مارکوس کے گروپ سے تعلق رکھتی تھیں۔لہذا اشیاء ضرورت کی من مانی قیمتیں مقرر کرنا ان کا مامول بن گیااور ان کو کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا۔حتیٰ کہ مارکوس نے ٹی وی چینلز اور اخبارات خرید لئے تاکہ اس کے خلاف کوئی بھی آواز نہ اٹھا سکے۔مارکوس حکومت میں غریب کسانوں کا بھی استحصال ہوا انہیں مجبور کیا جاتا کہ وہ عالمی قیمتوں سے کم قیمت پر اپنی اجناس مارکوس نواز کمپنیوں کو فروخت کریں۔وہ کمپنیاں پھر من مانے دام پر اجناس مارکیٹ میں فروخت کرتیں اور بھاری بھر کم منافع کماتیں۔ادھر غریب کسان بدستور غربت کی چکی میں پستے رہتے ۔دورانِ اقتدار مارکوس کو بین الاقوامی اداروں نے اربوں ڈالر کے غیر ملکی قرضے دیئے کیونکہ وہ امریکہ کا چہیتا تھا ۔مگر ان قرضوں کی پیشتر رقم مارکوس اور اس کے عزیز ڈکار گئے۔یہی وجہ ہے کہ جب اس کے اقتدار کا سورج غروب ہواتو فلپائن اربوں ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔شنید تھی کہ وہ عنقریب دیوالیہ ہونے والا ہے۔

عجیب بات یہ کہ مارکوس اور اس کی شا ہانہ نواز بیوی نے اپنی ریکارڈ توڑ کرپشن چھپانے کی زیادہ کوششیں نہ کیں۔انھوں نے فلپائن اور بیرونِ ملک کروڑں ڈالر خرچ کر کے محل اور مقاماتِ تفریح بنائے۔ وہ بیش قیمت لباس پہنتے۔اور شاہوں کی طرح ہیرے جوہرات میں کھیلتے۔ لیکن کہتے ہیں ناں کہ اکثر اوقات بدکردار انسان دنیا میں ہی اپنا زوال دیکھ لیتا ہے مارکوس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کرپشن کے اسیر دیگر کرپٹ ترین حکمرانوں کی فہرست میںایک اوراہم حکمران زائرے(کانگو) کے جنرل ” موبوتوسیکو”ہیں۔موصوف ساڑھے اکتیس سال (1997 تا ( 1965 تک اپنے ملک میں حکمرانی کرتا رہا۔اس دوران موبوتو نے کرپشن کو ملکی کرنسی بنا دیا۔اس کے دور میں رشوت لینا اور دینا ایک فن اور باقاعدہ نظام بن گیا۔اس نے جی بھر کے قومی خزانے اور عوام کو لوٹااور 5ارب ڈالر سے زائد کی رقم جمع کر لی۔اس دوران امریکی جی جان سے اس کے حامی رہے کیونکہ وہ وسطی افریقہ میں ان کا بہت بڑا مخلص حکمران تھا۔

Bribery

Bribery

“جنرل ثانی اباچا” 1993تا 1998 نائجیریاکا کرپٹ ترین حکمران رہا۔دورانِ اقتدار جنرل اور اس کے دوست،رشتہ داروں نے کرپشن کے ہو ممکن طریقے اپنائے اور ملک کو اربوں ڈالر سے محروم کر دیا۔اباچا بھی انتخابات کے مسلسل وعدے کرتا رہامگر ایک بھی وعدہ ایفا نہ ہوا۔وہ تو قدرتِ الہیٰ نے اسے اپنے پاس بلا لیا ورنہ کیا عجب تھا کہ جنرل صاحب کرپٹ ترین حکمرانوں میں سرِفہرست آنے کا اعزاز پا لیتے۔ انڈونیشیا کا” مردِآہن” قومی خزانہ لوٹنے مخالفین پر ظلم ڈھانے اور غیروں امریکیوں کی چاکری کرنے میں انڈونیشیا کا سابق حکمران جنرل سہارتو سرِفہرست رہا۔تاہم اس کے دورِ حکمرانی میں نیک و بد کا عجیب امتزاج تھا موصوف 1965ء میں امریکیوں کی پشت پناہی میں نمایا ہواجب انڈونیشی فوج کے لاکھوں کیمونسٹ قتل کر ڈالے ۔بعد ازاں 1967ء میںبابائے تحریکِ آزادی سوکارنو کو ہٹا کر جنرل سہارتو نے اقتدار سنبھال لیا۔اب اگلے 32 سال تک انڈونیشیا کے سیاہ و سفید کا مالک رہا ۔سہارتو کے حمایتیوں نے اسے بابائے ترقی قرار دیااور یہ کسی حد تک سہی بھی ہے 1965ء میں 60 فیصد انڈونیشی غریب کہلاتے تھے1997ء میں ان کی تعداد 13فیصد رہ گئی تھی۔اس دوران امواتِ اطفال کی شرح گھٹ گئی شرح خواندگی میں اضافہ ہوا۔اور لوگوں کی آمدنی بڑھ گئی۔لیکن مسلئہ یہ ہے کہ جب 1997ء میں ایشیائی بحران پیدا ہوا

تو بیشتر ملکی ترقی پانی کی طرح بہہ گئی۔لاکھوں انڈونیشی پھر کنگال ہو گئے اور اس کی وجہ کرپشن ہی تھی۔جنرل سہارتو دورِ حکمرانی کے پہلے دس برس تو ملک کی تعمیرو ترقی میں محو رہامگر پھر ذاتی خواہشات اور عزیزو اقارب کی ضروریات اور دیگر انسانی کمزوریاں اس پر غالب آ گئیں۔اب قومی خزانے سے رقم لوٹنے کے نت نئے طریقے دریافت کئے گئے لوٹ ما کا اولیں طریقہ کار ” یاسان ادارے”تھے یہ ادارے اس لئے قائم ہوئے تاکہ وہ دیہات میں ہسپتال اور سکول قائم کریںنیز دوسری فلاحی سرگرمیاں انجام دیںبعد ازاں سہارتو نے اپنے بیوی بچوں ،رشتہ داروں اور دوستوں کو ان اداروں کا سربراہ بنا دیا۔اور یہ ساری رقم سہارتو خاندان کی ملکیت بن گئی۔1997ء میں حکومت سے دستبرداری کے بعد سہارتو اور اس کے خاندان پر مقدمے چلے مگر انھوں نے لوٹ مار اتنی صفائی سے کی تھی کہ قانون ان کا بال بیکا بھی نہ کر سکا۔ اورخاص بات یہ ہے کہ دورانِ شہنشاہیت سہارتو حکومت کو ” انصاف پسند” امریکیوں کی مکمل حمایت حاصل رہی۔

Dollar

Dollar

اسی طرح کرپٹ ترین لیڈروں میں سربیا کا حکمران میلوشویج ایک ارب ڈالر، صدر ہیٹی 360 ملین ڈالر، صدر پیرو 600 ملین ڈالر،وزیرِاعظم یوکرائن پالو راز رینکو114تا 200 ملین ڈالر،صدر نکاراگواآرنولڈواسیمان 100 ملین اور صدر فلپائن جوزف ایسٹرڈ 70 تا 80 ملین ڈالرکی کرپشن میں شامل ہیں۔
یہ تمام لیڈر لوٹ مار اور کرپشن کرنے کے بعد اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہو چکے ہیں۔

یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی کرپشن اور رشوت “فیشن”بنتی جارہی ہے ۔بھلے وقتوں میں چھپ چھپا کر کرپشن کی جاتی تھی اور کرپشن کرنے والا اگر پکڑا جاتا تو ندامت سے ہی یا تو کرپشن کرنے سے توبہ کر لیتا یا پھر شرمندگی اور لوگوں کی لعن طعن سے موت کو گلے لگا لیتا ۔مگر موجودہ دور میں ندامت یا شرمندگی یا ضمیر نام کی کسی چیز کا وجود ہمارے ارد گرد تو ناپید ہو چکا ہے ۔ہمارے لیڈر بھی کروڑوں اربوں روپے کے کرپٹ ہیںایک دن ان سب کو بھی اپنے اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ انتہائی ڈھٹائی سے بولا جاتا ہے عوام تو عوام ہمارے لیڈر انِ محترم بھی اس گنگا میں ہاتھ دھونا باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔حالانکہ لیڈر کو تو اخلاقی اقدار کی پاسداری کا عملی مظاہرہ کرنا چاہئے۔کیونکہ عوام کے لئے لیڈر ایک آئیڈیل شخصیت ہوتا ہے۔جو لیڈر کہتا یا کرتا ہے عوام بھی اس کی تقلید کرتے ہیں ۔کیونکہ ان پڑھ اور جاہل عوام ہے جب تعلیم نہیں ہے تو نوکری کہاں نوکری نہیں ہے تو پیسہ نہیں ہے جب پیسا نہیں آئے گا تو پیٹ پاپی کی بھوک کیسے مٹے گی ۔تو پھر کرپشن کریں گے اور ڈاکے ہی ماریں گے ناں۔مال وزر لوٹیں گے ، ایک دوسرے کی عزتیں لوٹیںگے۔ قتل وغارت کا میدان سجے گا۔ایک دوسرے کے گریبان پھاڑیں گے۔خون سفید ہو جائے گا۔ ہمارے لیڈر،یا راہنما بھی تو اسی معاشرے کا ہی حصہ ہیں اسی لئے پرلے درجے کے کرپٹ ،بے غیرت اور ظمیر فروش ہیں ۔ ان کی مثال تو اس بے رحم گڈریئے کے جیسی ہے جو اپنے مال کو لق و دق صحرا میں ہانکتے ہوئے لے جا رہے ہیں ان کو خود بھی نہیں پتا کہجانا کہاں ہے۔

سارا دن ساری رات میڈیا پر منہ پھاڑے اپنی اپنی غلاظت ایک دوسرے پر پھینکتے ہیںجھوٹ پہ جھوٹ بولتے ہیں۔منافقت کرتے ہیں، ان کے دائیں بائیں وہی غلاظت کے ڈھیر کھڑے ہیں جنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک اپنی بدبو سے ا س ملک کی عوام کے ذہنوں کو اور ضمیر کو بالکل ماوف اور مردہ کر دیا ہے۔ جو دشمن انگریز آقائوں سے اپنی عزتوں اور ضمیروں کا سودا کر کے یہ لمبی لمبی جاگیریںانعام و اکرام میں پا کر آ ج اس مفلس اور مفلوک الحال قوم کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں۔قوم کی سوچ کو ان لوگوں نے مفلوج کر دیا ہے۔ یہ خود بھی کرپٹ ہیں اور دوسروں کی کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹ کر صرف عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔اِنھیں انگریز آقائوں کے اشاروں پر ان کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے۔

Hamid Qazi

Hamid Qazi

تحریر: حامد قاضی، شیخوپورہ
ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستان (C.C.P)
ای میل:hamidqazi47@gmail.com