کرپشن کا ناسور

Pakistan

Pakistan

پاکستانی سیاست میںچھانگا مانگا خرید و فروخت کی علامت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔جس طرح شب خون کو کوئی بھی جمہوریت پسند شخص شرفِ قبولیت نہیں بخش سکتااسی طرح چھانگا مانگا طرزِ سیاست کا کوئی بھی جمہوریت پسند شخص دفاع نہیں کر سکتا۔ میری ذ اتی رائے ہے کہ چھانگامانگا سیاست نے پاکستانی معاشرے میں جو کانٹے بوئے ہیں اس نے ملکی وجود کو لہو لہان کر کے رکھ دیا ہے ۔خرید و فروخت کا یہ عمل ایک ایسا ناسور تھا جس کا زہر پور ے معاشرے میں پھیل چکا ہے۔

اور ملک جان کنی کی ھالت میں ہے ۔کوئی لاکھ انکار کرتا رہے لیکن یہ سچائی اپنی جگہ پر اہم رہے گی کہ حکمرانوں کے اعمال ہماری روزمرہ کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہمارے لئے راہِ عمل کا تعین کرتے ہیں۔جیسے حکمران ہوں گئے ویسے ہی عوام بھی بن جائینگئے ۔حکمران امین،صدیق اوردیانت دار ہوں گئے تو عوام کے قلب و نظر کے اندر ان کے یہ خصائص خود بخو اتر جائیں گئے ۔لیڈرشپ بد دیانت ہو گی تو پورا معاشرہ بے راہ روی اور لوٹ مار کا منظر پیش کرتا ہے جسطرح آج کل ہمارے معاشرے کا طرہِ امتیاز بنا ہوا ہے۔

ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے ۔رشوت لینا اور رشوت دینا ہر کوئی اپنا حق تصور کرتا ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے منتخب نمائندے اس کی مکمل تصویر ہیں۔کروڑوں روپوں کے فنڈز جسطرح شیرِ مادر سمجھ کر ہضم ہو رہے ہیں اور کمیشن مافیا جسطر ح خرد بردکا ماہر بنا ہوا ہے اس نے پاکستان کی شناخت ایک ایسے ملک کی حیثیت سے کروائی ہے جہاں پر ہر چیز بکائو ہے۔جنرل پرویز مشرف نے ٢٠٠٢ کے انتخا بات کے بعد ایک منڈی سجائی تھی اور سیاسی جماعتوں کے ممبران کی کھلے عام خرید و فروخت کی تھی۔

پی پی پی کا ایک پیٹر یاٹک گروپ تشکیل دیا گیا تھا جس نے پی پی پی سے بے وفائی کر کے جنرل پرویز مشرف کی حمائت کی تھی اور اس حمائت کے صلے میں وزارتیں حاصل کی تھیں یہی حال مسلم لیگ (ن)کا بھی تھا جس کے کئی ممبران جنرل پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ گئے تھے ۔کمال یہ ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے انہی ممبران کو ایک دفعہ پھر اپنی جماعتوں میں واپس لے لیا ہے جھنوں نے انھیں کل ڈھسا تھا۔ایسے لوگ ایک دفعہ پھر پاک دامن ٹھہرے ہیں کیونکہ انتخابات کی جیت کیلئے ان کی اشد ضر ورت محسوس ہوئی ہے

۔سیانے کہتے ہیں کہ اپنی فتح کیلئے کبھی کبھی لاشوں پر بھی قدم رکھ کر گزرجا نا پڑتا ہے چنانچہ بااثر افراد کی پارٹی میں شمولیت پر جماعتوں میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور بڑے بڑے معرکے برپا ہو رہے ہیں کیونکہ یہ وہ گھوڑے ہیں جو فتح مندی کی علامت ہیں۔قائدین کو بھی اس کی خبر ہوتی ہے کہ یہ مرغ بادِ نما افراداپنے مفادات کے اسیر اور پرلے درجے کے مفاد پرست ہیں لیکن پھر بھی انھیں قبول کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس بھی اسکا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔

Political Party

Political Party

١٩٧٠ میں پاکستانی سیاست میں ایک نیا تجربہ کیا گیا تھا اور اس تجربے نے پاکستان کو مڈل کلاس سے ایک نئی قیادت عطا کی تھی ۔جو وفا دار بھی تھی،ذہین بھی تھی،امین بھی تھی اور سچی بھی تھی لیکن اس قیادت کو بھی ٹکنے نہیں دیا گیا اور وڈیرہ از م کا وہی پرانا کلچر ایک دفعہ پھر ہماری سیاست کا امتیازی نشان بنا۔پاکستان میں اگر فوجی حکومتوں میں تھوڑی بہت روک لگا دی جاتی تو شائد اصل جمہوری کلچر زیادہ فراوانی سے پروان چڑھتا لیکن فوجی مارشل لائوں نے جمہوریت کے گلے پر جو چھری چلائی تھی اس سے اصلی جمہوریت کا خون ہو گیا۔

اس کی جگہ وہی جعلی جمہوریت کا راج قائم ہو گیا جو اسٹیبلشمنٹ کی آرزو تھی۔جنرل ضیا الحق نے پی پی پی کا اثر زائل کرنے کیلئے جو حربے استعمال کئے اور ممبرانِ اسمبلی کو جسطرح فنڈز دینے کی روائت کاغاز کیا اس نے پاکستانی سیاست کو کرپٹ کر کے رکھ دیا۔ مذہبی جماعتیں بھی اس حمام میں برہنہ نظر آنے لگیں۔وہ بھی مارشل لا کے دست و بازو بن گئیں اور انھوں نے فوجی حکومت سے اپنا حصہ وصول کر کے خو د کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا لیکن وقت نے ان کے اس فیصلے کو غلط ثابت کیا۔ الیکشن ٢٠١٣ میں ان کا کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں رہا۔

مذہبی جماعتوں کی بھٹو دشمنی انھیں فوجی حکومتوں کے قریب لائی ۔ وہ بھٹو دشمنی میں فوجی حکومتوں کے قریب ہوتی گئیں،پاکستانی خزانے سے اپنا حصہ وصول کرتی رہیں اور آمریت کو ممکنہ حمائت بہم پہنچاتی رہیں جس سے پاکستان ایک ایسی دلدل میں پھنس گیا جس سے نکلنا انتہائی مشکل ہو چکاہے۔ انکی ساری سوچ چونکہ منفی جذبوں پر رکھی ہوئی تھی جو ہمیشہ بر گ و بار لانے سے عاری ہوتی ہے لہذا وہ ناکام رہیں ۔قوم نے انتخا بی عمل سے اس دلدل سے نکلنے کی کوششیں کیں لیکن وڈیروں کے بار بار پارلیمنٹ کا ممبر بن جانے سے یہ کوششیں بیکار گئیں اور پاکستان ترقی کی حقیقی منزل کبھی حاصل نہ کر سکا۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے اسی ترقی پسند سوچ کی جانب ایک بڑا اہم قدم ا اٹھا یا ہے ۔ اس نے انتخابات ٢٠١٣ کیلئے نیا پاکستان کا توانا نعرہ دیا ہے جس میں ہر سو انصا ف کا دور دورہ ہوگا۔ممبران کو صوابدیدی فندز نہیں ملیں گئے۔کرپشن کیلئے سخت قوانین نافذ کئے جائینگئے ۔ مڈل کلاس کو پاکستانی فیصلوں میں شامل کیا جائیگا۔اسی سوچ کے تحت پاکستان تحریکِ انصاف نے پارٹی ٹکٹ مڈل کلاس کے نوجوانوں کو دئے ہیں تاکہ ملک کا اکثریتی طبقہ اسمبلیوں کا ممبر بن سکے۔

مجھے یقین ہے کہ مڈل کلاس کے پارلیمنٹ میں جانے سے پاکستان کا تشخص بالکل بدل جائیگا۔مڈ ل کلاس پر اعتماد کر کے عمران خان نے ایک انتہائی مشکل فیصلہ کیا ہے لیکن اگر وہ اس فیصلے پر ثابت قدمی سے ڈٹا رہا تو اسے فتح سے ہمکنار ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔فتح خونِ جگر مانگتی ہے اور عمران خان خونِ جگر دینے کیلئے تیار ہے۔نوجوانوں کی ایک غالب اکثریت اسکے ساتھ ہے۔اور جس کے ساتھ نوجوان ہو جائیں اسکا راستہ روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔

Mian Brothers

Mian Brothers

مجھے علم ہے کہ میاں برادران کے پاس بے شمار دولت ہے،انھیں لوگوں کو خریدنے میں بھی کمال ھاصل ہے کیونکہ ان کی ساری زندگی خریدو فروخت کرتے ہوئے گزری ہے لیکن جب معاشرے ارتقائی عمل سے گزرنے کا تہیہ کر لیتے ہیں تو پھر یہ قوت بھی زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔لوگ جذبوں کی صدا قت پر محوِ رقص ہو جائیں تو انھیں انجام کی فکر نہیں رہتی۔انسان کبھی بھی غلط سوچ پر نہیں بلکہ سچائی پر ہی محوِ رقص ہوا ہے۔

دنیا میں صرف سچائی میں ہی یہ طاقت ہے کہ وہ انسانوں کی دنیا بدل ڈ الے ۔دل کی دنیا بدل جائے تو پھر زمین پر سب کچھ خود بخود بدل جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا بھی تو ہماری فکر ،اعمال اور افکار کی عکاس ہوتی ہے۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔ نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا (ڈاکٹراقبال) ڈاکٹر علامہ طاہر القادری ٣٣ دسمر ٢٠١٢ کو کینیڈا سے تشریف لائے تو ایک امید بند ھی تھی کہ پاکستانی سیاست میں ٦٢ اور ٦٣ کی حکمرانی ہوگی ۔اس کیلئے انھوں نے ایک تاریخی لانگ مارچ بھی کیا۔

اسی لانگ مارچ کی کوکھ سے ایک معاہدے نے جنم لیا جس میں ٦٢ اور ٦٣ پر عمل داری کا وعدہ کیا گیا لیکن بعد میں حکومت اس دعدے سے پھر گئی اور ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اپنی ڈگر سے ہٹ گئے۔انھوں نے انتخابات کا با ئیکات بھی کیا اور ١١ مئی کو دھرنے دینے کا اعلان بھی کیا۔ شیخ الاسلام سے اسطرح کے طرزِ عمل کی توقع نہیں تھی۔ انھوں نے ایک لمحے کیلئے بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ قوم ان سے بے شمار امیدیں وابستہ کر چکی ہے اورا س فرسودہ نظام اور کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے۔

لہذا انھیں سیاسی میدان میں رہ کر اپنی فکر کیلئے نئی راہیں تراشنی چا ئیں تھیں لیکن انھوں نے انتہائی سادگی سے لٹیروں کیلئے راستہ کھلا چھوڑ دیا کہ وہ اسمبلی کا ممبر بن کر اپنی لوٹ کھسوٹ جاری رکھیں۔انھیں ہمخیال جماعتوں سے مل کر نئی حکمتِ عملی ترتیب دینے کی ضرورت تھی۔ان کے بائیکاٹ سے وہ جماعتیں جو انکی فکر سے متفق ہیں انھیں سخت نقصان پہنچے گا۔

ان کے بائیکاٹ سے استحصالی گروہوں کو انتخابی فائدہ پہنچے گا کیونکہ وہ ووٹ جو استحصا لی قوتوں کے خلاف کاسٹ ہونے تھے اب وہ دھرنے کی وجہ سے بیکار جائینگئے اور استحصا لیوں کی جیت یقینی ہو جائیگی ۔ کیا شیخ الاسلام یہی چاہتے ہیں کہ ایک ایسی جماعت بر سرِ اقتدار آجائے جس نے اس ملک میں کرپشن کا آغاز کیا تھا۔

لیکن اگر وہ بائیکاٹ ختم کر کے اپنا ووٹ اس جماعت کے پلڑے میں ڈا لیں جو انکی فکر کی علمبردار ہے تو شائد انکا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوجائے لیکن اگر انھوں نے پھر بھی بائیکات کی روش جاری رکھی تو پھر بقولِ اقبال ۔۔قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیاہے؟۔اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام۔

Tariq Butt

Tariq Butt

تحریر : طارق حسین بٹ