چاچا بیشا سے ٹونی برگر تک!

Politics

Politics

تحریر:مسز جمشید خاکوانی

کسی نے مجھ سے کہا خواتین کو کیا پتہ سیاست کا ۔۔۔میں نے کہا ارے بھئی سیاست تو شروع ہی خواتین سے ہوتی ہے، گھریلو سیاست سے لے کر محلاتی سازشوں تک کہاں یہ نہیں پائی جاتی،بلکہ جو اللہ کا خوف رکھنے والی خاتون اس مشغلے سے ہٹ جائے ” نکو ” بن کے رہ جاتی ہے۔ اصغری ،اکبری سے لے کر ماما عظمت تک وہ بھی ایک قسم کی سیاست تھی ۔۔بادشاہ اکثر انہی محلاتی سازشوں میں مارے گئے ،دشمن کی تلوار سے، کم رانیوں کی سیاست سے زیادہ مارے گئے ،سچ پوچھیں تو یہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یہ تو اکثر سنا کرتے تھے۔

مگر سیاست حمیت سے بھی عاری کر دیتی ہے یہ اس دور میں دیکھ رہے ہیں ۔سفید جھوٹ ،نیلی سیاست ،پیلی صحافت یعنی ہر رنگ عیاں ہے اگر نہیں ہے تو اخلاص ،ایمانداری، برداشت، ادب، تمیز، کما کر کھانے کا جذبہ ،آگے بڑھنے کی ہمت،حب الوطنی، اداروں کا تقدس،یعنی کہ سب اخلاقی قدریں ملیا میٹ ہو چکی ہیں ۔اہل اقتدار اس کا سبب عمران اور قادری کے دھرنوں کو گردانتے ہیں ،تو عمران اور قادری حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے چند خاندانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ،جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ” ریاست جب معاشی ضروریات پوری نہ کرے تو عدم برداشت بڑھتا ہے ” اور یہی وہ نقطہ ہے

جس سے حکومت لوگوں کی توجہ ہٹانے میں لگی ہے اور عمران خان لوگوں کی توجہ دلانے میں لگا ہے کہ اپنے حقوق کے لیئے آگے بڑھو ، نہ ملیں تو چھین لو ۔۔۔۔پہلے اور اب کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق آگیا ہے چاچا بیشا محلے کی چھوٹی چھوٹی دکانوں پر پاپے سپلائی کرتا تھا پرانی سی سائیکل پر سوار چاچا بیشا جس کا اصل نام بشارت تھا اپنی اسی زندگی میں خوش تھا ۔کونسلر صاحب کے در پہ روز حاضری دینا اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیئے مائی باپ کے آگے ہاتھ باندھے منتیں کرنا اس کی زندگی کا حصہ تھا ۔جو اس کے بیٹے تنویر کو بالکل پسند نہیں تھا تنویر چھوٹی سی عمر میں کڑھا کرتا۔

تنویر کا ایک ماموں انگلینڈ میں رہتا تھا اس نے میم سے شادی بھی کی لیکن اسکی اولاد نہ ہوئی بہت عر صہ باہر رہنے کے بعد وہ پاکستان لوٹاتو تنویر کی ذہانت نے اسے دنگ کر دیا۔چاچا بیشا اس کی اسی ذہانت سے تنگ تھا کہ بڑے لوگوں سے خوامخواہ الجھتا ہے لیکن اس کا ماموں اس معاشرے سے آیا تھا جہاں ووٹ کے تقدس کا احترام کیا جاتا ہے وہ کہتا یہ صحیح کہتا ہے تم جائز کام کے لیئے بھی ہاتھ جوڑتے ہو اور ناجائز کام کے لیئے بھی سو جاتے ہوئے وہ تنویر کو ساتھ لے گیا ۔جو وہاں جا کے ٹونی ہو گیا ۔اب اس ٹونی سے آپ چاچے بیشے کی طرح ہاتھ نہیں جڑوا سکتے۔

یہ نئی جنریشن ہے اس کی بدتمیزی نما ذہانت کا مدعا آپ عمران خان پہ ڈال کے جان نہیں چھڑا سکتے ان کے جائز حقوق دینے پڑیں گے۔ میرے ساتھ ایک بلوچی بحث کر رہا تھا کہ ہم پنجابیوں سے اپنے حقوق بزور قوت چھین لیں گے ابھی تو ہم اس دھرناسیاست کا نتیجہ دیکھنے کو رکے ہوئے ہیں ،میں نے پوچھا تمھارے حقوق کیا ہیں ؟اور کس نے چھینے ہیں ؟ وہ کہنے لگا پنجابی تمام وسائل پر قابض ہیں لاہور کی ترقی دیکھی ہے ؟اور ہمارے علاقوں میں خاک اڑتی ہے ،پینے کا صاف پانی نہیں ہے ،تعلیم نہیں ہے

بیمار ہوں تو میلوں پرے چل کے جانا پڑتا ہے مریض راستے میں جان دے دیتا ہے ،ہمارے علاقے سے گیس نکلتی ہے اور ہم ہی محروم ہیں ۔۔میں نے کہا اربوں کی گیس رائلٹی بلوچ سردار وصول کرتے رہے ہیں تم نے ان سے اپنا حق کیوں نہیں مانگا ؟کیا ان کے محلات نہیں ہیں ذاتی فوج نہیں ہے یا نجی جیلیں نہیں ہیں ؟ ان کے بچے انگلینڈ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں نہیں پڑھتے کیا؟اور وہاں سے پڑھ کر واپس آتے ہی سردار بن جاتے اور تم چاکر کے چاکر ہی رہتے ہو۔تاریک راہوں میں بھی تم ہی مارے جاتے ہو مسنگ پرسن بھی تم ہی کہلاتے ہو کیوں؟

ارے بھائی سارے مایا کے کھیل ہیں اس لیئے ہر جائز و نا جائز طریقے سے دولت اکھٹی کی جا رہی ہے کسی کو خرچ کرنے کو نہیں ملتی اور کوئی سوچتا ہے اتنی دولت خرچ کہاں کروں ۔ورنہ بلوچ بھی اتنے ہی محب الوطن ہیں جتنے پنجابی پٹھان یا سندھی ،یہ سب اصل مسلئے سے توجہ ہٹانے کے طریقے ہوتے ہیں ۔تھر کے بچے روز بھوک سے مرتے ہیں ،وہاں بھوک کا علاج بھی جھاڑ پھونک سے کیا جاتا ہے ،جعلی بابے کہتے ہیں سوکھے کی بیماری ہو گئی ہے مائی بچے کو سات دن تک آدھا دھڑ ریت میں گاڑ دیا کرو ٹھیک ہو جائے گا بچہ ٹھیک تو نہیں ہوتا بھوک سے جان دے کر پورا ہی زمین میں گڑ جاتا ہے اور سندھ کا سائیں بیان دیتا ہے بچے بھوک سے نہیں غربت سے مرے ہیں۔

Democracy

Democracy

ان کو کیا معلوم بھوک بھی تو غربت سے آتی ہے انہوں نے کبھی غربت کا مزہ چکھا ہو تو ۔یہ غربت ایمان اور وطن پرستی سب کھا جاتی ہے ،پیٹ میں روٹی نہ ہو تو آسمان پر چاند بھی روٹی نظر آتا ہے ۔یہ سائیں جن کے ہاتھوں سے اناج اگواتے ہیں جن سے ووٹ لے کے راج سنگھاسن سنبھالتے ہیں ان کو روٹی بھی نہیں دیتے ۔تھر کے باسیوں سے وعدے تو بہت کیئے گئے جو وفا نہ ہوئے ،جتنا پیسہ مزاروں پہ لگا دیتے ہین اتنا بھی زندوں پہ نہیں لگاتے ۔پھر غربت کیسے مٹے ؟ یہ سوال جو بھی اٹھاتا ہے ریاست کا باغی کہلاتا ہے ،جمہوریت کا دشمن کہلاتا ہے اس جمہوریت کو بچانے کے لیئے سارے سردار ،وڈیرے ،چودھری ،صنتکار،ایوانوں میں اکھٹے ہو جاتے ہیں ،روز عوام کے پیسے سے منڈلیاں لگتی ہیں

پہلے گالی گلوچ ہوتی ہے ،ایک دوسرے کے عیب کھولے جاتے ہیں اپنی اپنی بولی لگائی جاتی ہے جب سودا طے ہو جاتا ہے تو سب پس میں شیر و شکر ہو جاتے ہیں اس کو یہ جمہوریت کا حسن کہتے ہیں ۔پہلے یہ باتیں چھپی رہتی تھیں اب میڈیا پرت پرت کھولتا ہے جس کا منہ بند کر لیں تو یہ کامیاب ورنہ ظلم و بدنامی کے قصے سرحدیں ٹاپ جاتے ہیں ۔کیسے مسلمان ہیں ہم ؟اگر کسی نے اصل خرابی دور کرنے کا عزم کر ہی لیا ہے تو اس کی راہ میں چٹان بن کے کھڑے ہو گئے ہیں عمران خان بنیادی حقوق دلانے کی بات کرتا ہے نا تو اس میں خرابی کیا ہے ،ویسے تو ہم جمہوریت کی ڈیفینیشن ہی نہیں جانتے مگر اس کی حفاظت کی قسمیں دن رات کھائی جاتی ہیں ۔جمہور تو پس رہا ہے

کسی کے پاس سوچنے کا وقت نہیں۔مولانا فرماتے ہیں ہم مغرب کا کلچر پاکستان میں رائج نہیں ہونے دیں گے ، اگر مغرب نے اسلام کی اچھی باتیں اپنا لی ہیں جو ہم بھول چکے ہیں تو یہ مغربی کلچر کیسے ہو گیا ؟ کیا اسلام رواداری محبت ،بھائی چارے پر زور نہیں دیتا؟ کیا اسلام میں مساوات قائم کرنے کا حکم نہیں ؟پھر اس کو صرف اس لیئے مغربی کلچر قرار دینا کہ یہ بات عمران خان کر رہا ہے ۔چلو اس بات کو بھی چھوڑ دیتے ہیں ۔ایک سامنے کی بات کرتے ہیں خیبر پختون خواہ ایک صوبہ جس کا نام سنتے ہی ذہن میں دھماکے گونجنے لگتے تھے پانچ سال دھماکے پہ دھماکے اور ڈاکے پہ ڈاکے کے تحفے دینے والے اسفندیارولی جن کے وزیراعلی کا بھائی کرپشن کیس میں جیل میں ہے اور وہ خود پیشیاں بھگت رہا ہے

وہ ج عمران خان کی کامیاب حکومت کی وجہ سے ہی خیبرپختونخواہ میں جلسے پہ جلسہ کر رہے ہیں پھر بھی کہتے ہیں عمران خان نے کے پی کے میں کیا کر لیا ہے ۔میںایک رپورٹ دیکھ رہی تھی خیبر پختونخواہ میںتوانائی کی کمی دور کرنے کے لیئے 358 چھوٹے پن بجلی گھروں کے ساتھ آٹھ درمیانے درجے کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ کے پی کے کی موجودہ حکومت نے مختلف اضلاع میں پانی کے بہائو کو دیکھتے ہوئے 358 پن بجلی گھروں کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے تاکہ علاقائی سطع پر بجلی کے بحران کا مسلہء حل کیا جا سکے۔

ان منصوبوں کی پوری تفصیل دی گئی ہے جو کہ کالم کی طوالت کے پیش نظر نقل نہیں کی جا سکتی بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عوامی بھلائی کے کام کرنے کے لیئے ستائش کی ضرورت نہیں ہوتی نہ سارا پیسہ اشتہاروں پہ ضایع کرنا ضروری ہوتا ہے ہمارے حکمران جتنا پیسہ اپنی ذاتی پبلسٹی پر خرچ کرتے ہیں اس پیسے سے ملک کے اندھیرے دور کیئے جا سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے
چلتے ہیں دبے پائوں کوئی جاگ نہ جائے
غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے
ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجا۔۔۔
اس قوم کا حاکم ہی فقظ اس کی سزا ہے

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر:مسز جمشید خاکوانی