کروڑ لعل عیسن کے تعلیمی مسائل

High School

High School

رپورٹ: زاہد محمود عارفی
ضلع لیہ کا قدیم شہر کروڑ لعل عیسن جو کہ معروف روحانی پیشواء حضرت مخدوم لعل عیسن کی وجہ سے ملک بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ یہ شہر کسی زمانے میں ڈی آئی خان کی تحصیل رہا ہے۔ اور اس کا پرانا نام دیپال پور اور بعد ازاں کوٹ کروڑ تھا۔ حضرت مخدوم لعل عیسن کی عبادت اور ریزات کے باعث یہاں پر ہزاروں غیر مسلم مشرف با اسلام ہوئے۔ اور اس شہر کا نام کروڑ لعل عیسن پڑ گیا۔ آپ کا مزار فن تعمیر کا عملی نمونہ ہے۔

کروڑ لعل عیسن میں پاکستان بننے سے قبل ریلوے روڈ ہائی سکول تین ایکڑ پر مشتمل ہے جس میں ابھی بھی ایک بڑا ہال کمرے سمیت 6 سے زائد کمرے اسی دور کے موجود ہیں۔ جبکہ نئے بلاک بھی تعمیر ہو چکے ہیں۔ اس طرح بس اسٹینڈ کے قریب بھی اسی زمانے کی عمارت میں کام کر رہا ہے۔ لیکن روڈ کی دوسری جانب ہائی سکول نمبر 1 کی نئی بلڈنگ میں مڈل تا ہائی کی کلاسز شفٹ کر دی گئیں ہیں۔ جبکہ پرانی بوسیدہ اور خستہ حال بلڈنگ میں پرائمری سکول چلایا جا رہا ہے جو کہ معصوم جانوں کیلئے خطرے کا باعث ہے۔ اسی طرح گرلز ہائی سکول کروڑ میں بھی بہت سا حصہ پاکستان بننے سے پہلے سے سکول کا موجود ہے جن میں یہ کمرے بھی خستہ حال ہیں۔ اگر ہائی سکول نمبر 1 سے ملحقہ محکمہ ہیلتھ کی خالی بلڈنگ میں خستہ حال پرائمری حصے کے طلباء کو شفٹ کر دیا جائے تو ان کی زندگیاں محفوظ ہو سکتی ہیں۔ اور نئی بلڈنگ کا حصہ اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب گرلز ہائی سکول سے ملحقہ اس پوائمری بلڈنگ کو گرلز ہائی سکول کے ساتھ شامل کر کے نئے کمروں کی تعمیر کر دی جائے تو گرلز ہائی سکول میں جگہ اور کھیلوں کے گرائونڈ کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 کا پرائمری حصہ انتہائی خستہ حالی کا شکار ، کسی بھی وقت کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم انسان کو اس کی تخلیق کے حقیقی مقصد سے آگاہ کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی اہمیت کو نہیں سراہا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شہر کا گورنمنٹ سکول درسگاہ کم اور کھنڈر زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ جگہ جگہ ٹوٹی پھوٹی عمارتیں اور خستہ حال فرنیچر ہماری ادبی سوچ کا مذاق اڑا رہا ہے۔ یہ عمارتیں کسی بھی وقت منہدم ہو کر کسی بڑے سانحے کو جنم دے سکتی ہیں۔ 2 سال قبل لاکھوں روپے مالیت سے تعمیر ہونے والا چکنمبر 92-TDA کا گرلز ہائی سکول کریک ہو گیا۔ دیواروںمیں دراڑیں اور چھتیں کمزور ہونے لگیں۔ منہدم ہونے کا خطرہ۔ طالبات اور ٹیچرز سخت پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔ ہیڈ مسٹریس اور والدین کی درخواست پر ڈی سی او لیہ نے ڈی ڈی او ٹیکنیکل رانا آصف کو انکوائری آفیسر مقرر کر دیا۔

School

School

رانا آصف نے گزشتہ روز 92-TDA کے گرلز ہائی سکول کی عمارت چیک کی جس کی دیواروں اور چھتوں میں دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ انکوائری آفیسر نے ڈی سی او لیہ کو رپورٹ بھجوا دی۔

اس طرح 96/TDA کا تین کمروں پر مشتمل پرائمری سکول بوسیدہ ہو چکا ہے جو کہ یہاں کے معصوم طالب علموں کیلئے خطرے کا باعث ہے۔ کروڑ لعل عیسن میں میں ڈگری کالج گرلز و بوائز اور کامرس کالج ، لائیو سٹاک اور زراعت کے سکول سرکاری ادارے اور بہت سے پرائیویٹ سکول اور اکیڈمیاں موجود ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ کروڑ کے بوائز خصوصاً گرلز کالجز کی طالبات سٹاف کی کمی یا تعلیمی میعار کے فقدان کے باعث کالجز میں داخلے کی حد تک تو ہوتی ہیں۔ لیکن پرائیوٹ اداروں اور اکیڈمیوں میں تعلیم حاصل کر کے امتحان دے رہی ہوتی ہیں۔ اور سٹاف آرام سے تنخواہیں وصول کر کے حکومت کو کروڑوں روپے کا ٹیکہ لگا رہا ہے۔ جس سے اداروں کے تعلیمی میعار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈگری کالج کے پرنسپل پروفیسر فاروق حیات نے کالج کے میعار کو بہتر بنانے کیلئے 50 سے زائد طلباء کو حاضر نہ ہونے پر خارج کر دیا تھا۔ اور بعد ازاں ان کے دبائو پر انہیں دوبارہ داخلے دے دیئے گئے۔ پروفیسر فاروق حیات کا یہ کہنا ہے کہ تعلیمی میعار میں غفلت اور سستی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔

انہوں نے اپنے سٹاف کو اس سلسلہ میں توانا رہنے کی ہدایت دی ہے۔ جبکہ گرلز کالج کروڑ کی بس فنڈ نہ ہونے سے کافی عرصہ سے گیراج میں کھڑی ہے۔ امسال ضلع بھر کے 30 سپیشل بچوں نے مڈل کا امتحان پاس کیا اور 50 کے قریب بچے ہشتم جماعت میں زیر تعلیم ہیں۔

High School Room

High School Room

ہائی سکول نہ ہونے سے کامیاب طلباء کو ڈی جی خان اور ملتان میں بھی داخلہ نہ مل سکا۔ جس کے بعد بچوں کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے۔ سپیشل ایجوکیشن سکول لیہ کروڑ چوبارہ کی پرائیویٹ بلڈنگز کا کرایہ 25 سے 40 ہزار روپے تک ہے۔ علم میں آیا ہے کہ سپیشل ایجوکیشن سکول کروڑ کیلئے محکمہ زراعت کے سیڈ فارم میں تجویز مکمل ہو چکی ہے۔ جس کا انتقال باوجو نہ ہو سکا ہے۔ کروڑوں روپے سے بننے والے کالجز میں سٹاف کی کمی کو پورا کیا جائے اور انہیں (سٹاف) پابند کیا جائے کہ پرائیویٹ اکیڈمیوں کے کریڈٹ لینے کی بجائے طلباء و طالبات کو اپنے اداروں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ کریں۔ ارباب اختیار کروڑ میں خستہ حال بلدنگز پر خصوصی توجہ دے کر طلباء اور سٹاف کی جانوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔

رپورٹ: زاہد محمود عارفی