جمہوریت کا حسن یا مفادات کا حصول

 Politics

Politics

یہ اعزاز صرف اور صرف پاکستانی سیاست کے حصے میں آیا ھے کہ اسکے سیاستدان ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے اکٹھےھونے میں ایک لمحہ کابھی ضیا ع نھیں کرتے۔کچھ اس طرح کے حالات آج کل نظر آتے ھیں۔وھی سیاسی راہنما جو ایک دوسرے کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتے تھے آج باہمی شیروشکر نظر آتے ہیں بلکہ ھم نوالہ ہم پیالہ بنے ھوےُ نظر آتے ہیں۔آج اگر میاں نواز شریف کی رفقا ء پر نظر دوڑائیں تو وہی چہرے نظر آ ئیں گے جو پرویز مشرف کے دست راست تھے۔

چا ہے ان میں مشرف کے منہ بولے بھایَ امیر مقام ہوں یا ماروی میمن جیسی عظیم سیاسی شخصیت۔2013 کے عام انتخابات کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن نے جہاں دوسری پارٹیوں کو انتخابی مہم کے دوران لتاڑا وہی پہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی خوب آو بھگت کی۔خادمِ اعلیٰ تو جوشِ خطابت میں ایسے ایسے باتیں کر جاتے کہ الامان ۔کئ موقعوں پر تو شہباز شریف نے زرداری اور اس کے ساتھیوں کو علی بابا اور چالیس چوروں کے خطاب سے نواز دیا۔اور اس پر بھی انکے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ھوی َتو زرداری کو سڑکو ں پر گھسیٹنے تک کی با تیں کر ڈالیں۔

آج پھر جب حالات نے رخ بدلا اور میاں محمد نواز شریف کو اپنے اقتدار کی کشتی ڈگمگانے لگی تو وہی سابقہ صدر ِ پاکستان آصف زرداری کو میاں برادران نے مدد کے لیے پکارا۔حالانکہ ایک وہ وقت بھی تھا جب زرداری نے شریف برادران سے ان کے بھایُ کی وفات پر تعزیت کے لے آنا چاہا تو نواز شریف ملنے سے معذرت کرلی اور آنے سے منع کر دیا۔اور آج وہی جاتی امراء کے میزبان اسی مہمان کے لیے چشم براہ ہیں۔اور زرداری کےمشوروں سے مستفید ہورھے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیَر مین آصف علی زرداری نے ایک مو قع پر پاکستان مسلم لیگ ق کو قاتل لیگ جیسے القابات سے نوازا اور پھر حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اسی مسلم لیگ کے اھم راہنما چوہدری پرویز الہی پاکستان کےڈپٹی وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان کیا۔ اسی طرح پی ٹی آیَ نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہا تھ صاف کیے۔ عمران خان نے کیَ بار جوشِ خطابت میں ایم کیو ایم کو لتا ڑا بلکہ لندن تک پیچھا کرنے کی دھمکی لگایَ جو آج تک صرف ایک دھمکی ھی رہی۔ اگر تھوڑا سا ذھن پر زور دیں تو عمران خان کے وہ بیانات جو انھوں نے شیخ رشید کی شان میں بیان کیے وہ وقت کی دھول کے نیچے ابھی تک دبے نھیں جن میں عمران خان نے شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی تک رکھنے سے انکار کر دیا تھا اور انکی پارٹی کو تانگہ پارٹی قرار دیا تھا۔

لیکن حالات بدلے چہرے نہ بدلے وہی شیخ رشید گوھرِِ ِ نایاب بنے عمران خان کے لیے ،اور 2013 کے انتخابات سے اب تک دونوں ہم نوالہ ہم پیالہ ہیں۔آزادی مارچ کے دوران شیخ رشید عمران کے دستِ راست نظر آتے ہیں۔حتٰی کہ دورانِ خطاب بھی عمران ان کے مشوروں سے مستفید ھوتے نظر آتے ہیں۔اسی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے خطبات کے دوران اپنے مریدوںکو وہ واقعات بتاتے ہوُے تھکتے نہیں تھے کہ کس طرح میاں برادران خانہ کعبہ میں کندھے پر سوار کر اکے ان کی عبادات پوری کرانے میں مدد کرتے اور کس طرح غارِ حرا تک نواز شریف آپ کو کندھے پر بٹھا کر لے گےَ تھے اور کس طرح مثالی خدمت کی جس کی تعریف کرتے ڈاکٹر طاہرالقادری تھکتے نھیں تھے۔

Democracy

Democracy

لیکن آج نہ صرف لہجے بدلے، بلکہ حالات بدلے اورخیالات بدلے ،کل کے حلیف آج کے حریف بنے ،آج وہی ڈاکٹر طاہرالقادری انہی میاں برادران کو اپنا دشمنِ خاص سمجھتے ہیں اور ان کا نام لیتے ہو ےَ بھی ان کی آنکھوں میں بجلیاں کڑکتی ہیں اور لہجے میں تلخی آ جاتی ہے۔ان سب حالات کےمشاھدے کے بعد یہ بات سامنے آتی ھے کے ھمارے سیاستدانوں کے اختلافات صرف اپنے اقتدار اور مفادات کے حصول کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ ملک و قوم کے لیے ۔ جب بھی ان مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو ایک دوسرے سے بغل گیر ھونے میں دیر ہی نہیں لگاتے جبکہ اس چیز کی ضرورت جب قومی سطح پر پڑ جاےَ تو ان کا اکٹھا ہونا نہ صرف مشکل ھے بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دان یہ اختلافات سیاست کی حد تک ہی رکھیں دوسروں کی ذات کے بجاےَ نظریات سے اختلاف کریں۔اور اپنے نظریات کی وضاحت دلیل سے کرنی چاھیے نہ کہ تذلیل سے۔کسی بھی مخالف کے خلاف ہرزہ سرایَ سے پہلے یہ بات ضرور سوچنی چاھیے کہ جو بات کہہ رھے ھیں اس کا مقصد صرف کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنا تو نھیں۔اور اگر کل ہا تھ ملانا پڑے تو آنکھیں جھکی ہوی َ نہ ھوں۔ اور یہ سو چنا پاکستانی قوم کا کام ہے کہ ایسے سیا سی راہنماوَں کا احتساب کریں اور ان پر نظر رکھیں کہ یہ لوگ قومی مفاد کے حصول کے لیے اکٹھے ہو رھے ہیں یا اپنے مفادات اور عظیم مقصد اقتدار کے حصول کے لیے۔

Pakistan

Pakistan

موجودہ دور میں پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گز ر رہا ہے اور اب ہمارے سیاستدانوں کو اس بات کا احساس کر لینا چا ہیے کہ ملک ہے تو ہم ہیں اور ہمیں اس کے مفادات کو سب سے افضل ہونے چاہیے اور کویَ بھی ایسا فعل سر انجام نہ دیں جس سے ملک کو نقصان ھو جاےَ اور ہم تاریخ کے مجرم ٹھہریں۔اور آنی والی نسلوں کا خدانخواستہ مستقبل کو محفوظ نہ کر سکیں۔

تحریر : احمد