شب و روز زندگی قسط 33

Sardar Bhadar Khan Sehar and Anjum Sehrai

Sardar Bhadar Khan Sehar and Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی
1942 میں یونیسٹ پارٹی کے سردار خضر حیات ٹوانہ پنجاب کے وزیر اعلی تھے۔ وہ مسلم لیگ کی مخالف جماعتوں انڈین نیشنل گانگریس اور مشرونی اکالی دل کے اتحاد اور آشیر باد سے وزیر اعلی بنے تھے۔ پنجاب کے تقریبا سبھی جاگیردار اور لینڈ لارڈ یونیسٹ پارٹی میں ان کے ساتھ ہے۔1947 کے ہو نے والے صوبائی ریفرنڈم میں مسلم لیگ نے پنجاب میں 86 ن میں سے 79 نششتوں پر کامیابی حاصل کی۔

یو نیسٹ پا رٹی کی بد ترین شکشت کے با وجود ٹوانہ حکو مت نے اپنے سیا سی حلیفوں انڈین نیشنلگا نگریس اور مشرونی اکالی دل کے سا تھ مل کردو ماہ تک مسلم لیگ کو حکومت نہ بنا نے دی ۔ پا کستان بننے کے بعد جب پنجاب تقسیم ہوا تب پا کستان میں جا گیر داروں ن اور وڈیروں نے مسلم لیگ کا دامن تھا ما ۔ قا ئد اعظم اور قا ئد ملت لیا قت علی خان کی وفات کے بعد ما ضی کے یو نیسٹ” منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق “پا کستان اور مسلم لیگ کے ما لک بن بیٹھے ۔ ما ضی گواہ ہے کہ ان یو نیسٹ خا نوادوں کا کو ئی نظریہ اور کو ئی سیاسی قا عدہ اور قا نون نہیں ۔پا کستان میں ان جا گیردار اور وڈیروں نے بیو رو کریسی ، ملٹری اشٹبلشمنٹ اور مذ ہبی اشرا فیہ سے مل کر پا کستان کی سیا ست اور ریا ست پر قبضہ کر لیا ۔ اور یہ قبضہ آج تک چلا آ رہا ہے ۔ سکند مرزا کی ریپبلکن پا ر ٹی ایوب خان کی کنو نشن لیگ میں انہی وڈیروں اور جا گیر داروں کی مو جیں رہیں ۔ وہی ذوالفقار علی بھٹو جسے رو ٹی کپڑا اور مکان کا صرف نعرہ لگا نے پر قوم نے اپنے سر پر بٹھا یا ان کے اقتدار میں آ نے کے بعد پی پی پی نے انہی لو گوں کو سب سے پہلے نشا نہ عبرت بنا یا جو عوام کی بات کر تے تھے اور وہی تاج بر طا نیہ کے وفادار وڈیرے اور جا گیردار اسلا می شوشلزم کے کرتا دھرتا بن بیٹھے ۔ ضیاء کی مجلس شوری ہو یا پھر پرویز مشرف کی جمہو ریت کے بطن سے عوام کی بجا ئے یہی چہرے نمودار ہو ئے۔

Nwab Liyaqat Ali Khan

Nwab Liyaqat Ali Khan

تحریک پا کستان کے وقت جنو بی پنجاب کے اکثر وڈیرے اور جاگیرداروں کا تعلق بھی یو نیسٹ پا رٹی سے تھا لیہ کے جکھڑ اور سیہڑ خاندان کی ہمد ریاں بھی یو نیسٹ پا ر ٹی کو حا صل تھیں ۔پا کستا ن بننے کے بعد ہما رے ہاں کے ان وڈیروں نے ہمیشہ اقتدار اوراختیار کا سا تھ دیا ۔ ان کا نظریہ ہمیشہ اقتدارو اختیا ر میں حصہ بقدر جثہ کا اصول رہا ۔ اللہ بخثے مر حوم سردار بہرام خان سیہڑ کو انہوں نے دو لتانہ مسلم لیگ کے بعد پی پی پی میں شمو لیت اختیار کی مختصر سے عر صہ کے لئے ایم این اے بھی منتخب ہو ئے بے نظیر بھٹو نے انہیں اپنے پہلے دور میں پیپلز پروگرام لیہ کا چیئرمین نا مزد اورپھر فیڈ رل جج مقرر کیا گیا ۔ان کے بیٹے سردا ر شہا ب الدین خان سیہڑ پرویز مشرف دور میں لیہ کے پہلے ضلع ناظم بنے اور آج کل پنجاب اسمبلی میں پی پی پی کی جا نب سے ڈپٹی اپو زیشن لیڈر کی ذ مہ داریاں نبھا رہے ہیں ہیں سردار بہرام خان سیہڑ کی وفا ت کے بعد ان کے سیا سی جا نشین سردار جہا نگیر خان نے زیر عتاب پی پی پی چھوڑ کر جو نیجو لیگ اختیار کی اور ضیا ء الحق مار شل لا ء کو جوائن کر لیا مشرف دور میں بننے والے ضلعی نظام میں سیہڑ خاندان کی پا نچوں انگلیاں گھی میں رہیں ۔ لیہ ضلع کی نظا مت ۔تحصیل کروڑ کی نظا مت اور پھر مسلم لیگ ق کے اقتدار میں سردار بہادر خان کی وفا قی وزارت ان کا مقدر بنی ۔ ق کے بے اقتدارا ہو نے کے بعد سیہڑ فیملی کو پھر پی پی پی کی یا د آ ئی اور ایک بار پھر سردار بہا در خان نے پیپلز پا ر ٹی کو جوا ئن کر کے ایم این اے کے امید وار بن بیٹھے مگر نا کام رہے ۔ مسلم لیگ ن میں ان کے علا قا ئی حریف قا بض ہیں ۔ مسلم لیگ ق کو وہ چھوڑ کر آئے ہیں ۔پی پی پی ایک ڈو بتا ہو اجہاز ہے سردار صاحب کیا کرتے کچھ امیدیں ہیں تحریک انصاف سے سو انہوں نے تحریک انصاف کو جو ائن کر لیا ۔ تحریک انصاف جوا ئن کر نے والے جنو بی پنجاب سے تعلق رکھنے وا لوں میں ہما رے نیا ز احمد جکھڑ بھی شا مل ہیں۔

ملک نیاز تین دفعہ ممبر قو می اسمبلی رہے وفا قی پار لیمانی سیکر یٹری رہے جکھڑ خا ندان بھی یو نیسٹ سیا سی نظر یات کا حامل رہا ہے ۔ ملک نیاز جکھڑ بھی مسلم لیگ پی پی پی اور مسلم لیگ ق سے ہو تے ہو ئے تحریک انصاف تک پہنچے ہیں ۔ پر ویز مشرف دور میں تحصیل کو نسل لیہ کی نظا مت اور وفا قی پا رلیما نی سیکریٹری شپ ان کے حصہ میں آ ئی ۔ مر حوم قادر بخش جکھڑ سا بقہ مغربی پا کستان کی سیا ست میں بڑا نام رہا ہے وہ 1962میں صو با ئی کا بینہ کے وزیر بھی رہے اور پھر پی پی پی کے امیدوار کی حیثیت سے ممبر قو می ا سمبلی کا الیکشن بھی لڑا ۔ پا کستا نی سیا ست میں یو نیسٹ سو چ با قا عدہ ایک نظریہ اور ا صول کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ سوچ ہے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر آ نے والے چڑ ھتے سورج کو سلام کر نا۔

Bail Gari

Bail Gari

ہماری قو می سیا ست میں آج بھی اسی اشرا فیہ کا قبضہ ہے شریف خاندان کے سیا ست میں متحرک اور فعال ہو نے کے بعد اب ہما رے یہ جا گیردار اور وڈیرے انڈ سٹری کے میدان میں بھی اپنے جھنڈے گا ڑنے لگے ہیں بد لتے ہو ئے سما جی حالات میںانہیں سیا ست کا ایک اور مصرف سمجھ اگیا ہے ۔ قر ضے اور پر مٹ ۔اب ہما رے کل کے یہ جا گیردار آج کے انڈ سٹریلسٹ بنے بڑے بڑے ہا تھ مار رہے ہیں ۔ انتخابات کروڑوں کی گیم بن چکے ہیں مہنگے انتخا بات کی وجہ سے عام سیا سی کا رکن اب ان کے لئے کو ئی درد سر نہیں رہے ۔ مقا بلہ عوام کا نہیں ارب اور کھرب پتیوں کے درمیان ہے ۔ اور عوام کا مقدر تو بس یہی کہ عمران آئے نواز جا ئے ۔ اور اب تو ہو گئی بھٹو بھٹو کے نعروں پہ تا لیاں پیٹنا ہی رہ گیا ہے حکمرا نی وڈے سا ئیں وڈے میاں اور وڈے خان کے گھر کی لو نڈی بنی ہے اور اس کے بعد مالک ہیں وہی جکھڑ ، سیہڑ ، مخدوم ، قریشی اور دولتانے ٹمن اور نوانے کہ یہ دھرتی کل بھی ان کی تھی اور آج بھی ان کی ہے ۔ ان وڈیروں اور جا گیرداروں پر مشتمل یہ سبھی پا ر ٹیاں سیا سی پا ر ٹیاں نہیں سیاسی قبا ئل ہیں جہاں عوام کی نہیں ان کے تحفظ کی بات ہو تی ہے ، سیا ست بھی اک میراث ہے جس کے لئے ہمارے ان وڈیروں کے را جے مہاراجے اور عالم پناہ اپنوں کے ہی گلے کا ٹتے اور آ نکھیں نکا لتے نظرآ تے ہیں۔ پا رٹیان بد لنا ان کی شر شت ہے اوران کی مجبو ری بھی کہ جیسے پا نی بنا مچھلی نہیں رہ سکتی اسی طرح قتدار بنا ان کے لئے سا نس لینا دو بھر ہے ان سے گلہ کیا کر نا ۔ افسو س تو ہے اس عوام پر جو ان کے جا نے پر بھی تا لیاں پیٹتے اور بغلیں بجا تے نظر آتے ہیں اور آ نے پر بھی تا لیاں پیٹتے اور بغلیں بجا تے نظر آتے ہیں ۔ دکھ تو یہ ہے کہ غربت ،پسماندگی ،بے روز گاری ، نا انصا فی ، دہشت گردی ، مہنگا ئی اور بد حالی سے بد حال قوم یہ کیوں نہین سو چتی کہ ۔۔

دے رہے ہیں جو تمہیں رفا قت کا فریب
ان کی تا ریخ سنو گے تو دھل جا ئو گے
اپنی مٹی پے ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پر چلو گے تو پھسل جا ئو گے

خیر بات ہو رہی تھی ضلع کو نسل کے انتخابات میں کو ٹ سلطان سے امیدوار بننے کی ْ ۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ حلقہ تین یو نین کو نسلوں پر مشتمل ایک بڑا حلقہ تھا اور اس حلقے سے دیگر گیارہ بارہ بلدیا تی امیدواروں میں سے میں بھی ایک ا میدوار تھا ۔ جس کا نتخابی نشان بیل گاڑی تھا ۔ آج ان جو لا نیوں بارے سو چتا ہوں تو وہ سب بہت عجیب لگتا ہے کہاں وہ دن کہ کھانے کے لا لے پڑے ہیں اور کہاں یہ وقت کہ ہم ضلع کو نسل کے الیکشن میں کود پڑے اور ایسی حالت میں کہ نہ دھن نہ دو لت نہ قبیلہ اور نہ برادری بس بلدیا تی انتخابات کا اعلان ہوا اور یار لو گوں نے فیصلہ کر لیا کہ الیکشن میں حصہ لیں گے اور ہمارے گروپ کی جانب سے انجم صحرائی الیکشن لڑیں گے ۔فیصلہ کر نے والے اس غیر رسمی جر گے میں شا مل تھے ذو الفقار خان نیازی ، نور محمد خان چانڈیہ ، مہر محمد اعجاز میلوا نہ ،چو ہدری منظور اعوان ، محمد طفیل خان بلوچ ، ،مفتی طا ہر ، چوہدری علی احمد ایڈدکیٹ مرحوم اور چند دیگر دوست ۔ ان دوستوں میں بیشتر تحریک استقلال کے سا تھیوں میں سے تھے ۔ان سب دوستوں نے نہ صرف اخلا قی عملی طور پر بلکہ اس کار خیر میں حصہ بقدر جثہ مالی تعاون بھی کیا۔ بچپن ہی سے اسلامی جمیعت اور جماعت اسلامی کی سنگت اور تحریک استقلال کی سیا سی اکیڈ یمی سے ملنے والی سیا سی تر بیت کے نتیجے میں ہماری شخصیت میںجنم لینے والے اعتماد اور حو صلے نے نے ان مراحل میں ہماری بڑی مدد کی۔ دوستوں کے فیصلے کے بعد ہما رے پاس کو ئی گنجا ئش ہی نہیں تھی سو ہم بھی علا قائی سیاست کی اس آ تش نمرود میں کو دنے کے لئے کمر بستہ ہو گئے ۔ با قی اگلی قسط میں۔

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی