قرض تلے دبے سوڈان کو جرمن اور فرانسیسی امداد کی پیش کش

Sudan President

Sudan President

سوڈان (اصل میڈیا ڈیسک) سوڈانی صدر عبداللہ حمدوک کے مطابق مشرقی افریقہ کا یہ ملک تقریباً ساٹھ ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ فرانس اور جرمنی نے قرض کے بوجھ سے نکلنے میں سوڈان کو مدد کی پیش کش کی ہے۔

فرانس نے قرض کے بحران سے دوچار سوڈان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو واجبات کی ادائیگی کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرض دینے کی پیش کش کی ہے جبکہ جرمنی نے بھی سوڈان کو قرض کے بوجھ سے نکلنے میں مدد کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے پیر کے روز پیرس میں کئی افریقی رہنماوں کے ساتھ میٹنگ کے بعد اس کا باضابطہ اعلان کیا۔ یہ میٹنگ سوڈان کی عبوری حکومت کو مالی امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں منعقد کی گئی تھی۔

میکروں نے کہا”متعدد مشکلات کے باوجود سوڈان میں سابقہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے قابل ذکر ترقی ہوئی ہے۔” انہوں نے اس تبدیلی کو ”حوصلہ افزا“ اور ”مثالی“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سوڈان کو اس کے مقاصد کے حصول میں بین الاقوامی برداری کواپنی ”اجتماعی ذمہ داری“ ادا کرنی چاہیے۔

میکروں نے سوڈان پر فرانس کا پانچ ارب ڈالر کا قرض معاف کرنے کا بھی اعلان کیا۔

اس موقع پر موجود فرانسیسی وزیر خزانہ برونو لی میری نے کہا”یہ تعاون سوڈان کے ساتھ ہماری شراکت داری اور اس پر ہمارے اعتماد کا مظہر ہے۔”

فرانسیسی صدر نے کہا ”ہم سوڈان پر واجب الادا تمام قرض معاف کرنے کے حق میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دیگر ممالک بھی ایسا ہی کریں کیونکہ یہ سوڈان کو قرض کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے ضروری ہے۔”

میٹنگ میں امریکا اور برطانیہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی سوڈان کو آئی ایم ایف کے قرض کے بوجھ سے نجات دلانے میں مدد کرنے سے اتفاق کیا۔

پیرس کی اس میٹنگ میں موجود جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بھی سوڈان کو قرض کے بوجھ سے راحت دلانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ برلن نے سوڈان کو آئی ایم ایف کا قرض ادا کرنے کے لیے ایک سو دس ملین ڈالر دینے کا عہد کیا ہے۔ جرمنی نے باہمی قرض میں راحت دینے کے لیے 390 ملین یورو کی مزید پیش کش کی ہے۔

فرانسیسی دارالحکومت کے لیے روانہ ہونے سے قبل ماس نے کہا تھا کہ گزشہ برس جون میں برلن میں منعقد سوڈان کانفرنس میں شرکاء نے اس مشرقی افریقی ملک کو مجموعی طورپر 1.8ارب ڈالر کی مدد دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ہائیکو ماس نے مزید کہا کہ جرمنی سوڈان کو قرض سے راحت دلانے کے لیے ”مکمل طور پر مدد کرنے‘‘ کے لیے تیارہے۔

سوڈان میں تقریباً تین عشروں تک سابق صدر عمر البشیر کی حکومت رہی۔ سن 2019 میں عوامی انقلاب اور ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ان کے خلاف بدعنوانی اور دیگر معاملات کے تحت مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔

عمر البشیر کا تختہ پلٹنے کے بعد وہاں سویلین اور فوج پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم ہے جس کا دنیا کے بیشتر ملکوں نے خیر مقدم کیا ہے۔

فرانسیسی وزیر خارجہ لی میری نے کہا کہ یہ میٹنگ مشرقی افریقی ملک کو دوبارہ ساتھ لانے کا ایک اہم موقع ہے جو گزشتہ تیس برسوں تک بڑی حد تک الگ تھلگ پڑ گیا تھا۔

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ سوڈان کے پرامن انقلاب کی کامیابی سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ گوکہ سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کا عمل کافی مشکل ہے لیکن یہ سوڈان کے عوام کے لیے زیادہ امن، اقتصادی خوشحالی اور آزادی کا تاریخی موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اور جرمنی ابتدا سے ہی سوڈانی عوام کے ساتھ ہے۔

سوڈان کے صدر عبداللہ حمدوک نے بتایا کہ ملک پر تقریباً 60 ارب ڈالر کا قرض ہے اور کورونا وائرس کی وبا سے اس کا معاشی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔

اس سال کے اوائل میں سوڈان نے امریکا کی مدد سے عالمی بینک کو واجب الادا اپنے قرض کا معاملہ طے کیا تھا۔