لکڑی کی ہے پٹری اور لوہے کی ہے ریل؟

Pakistan

Pakistan

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

ہم پاکستانی بھی اپنے عزم اور عادت کے بڑے پکے ثابت ہوئے ہیں، جس راہ پر چل پڑیں توبغیر کچھ سوچے سمجھے اپنا منہ نیچے کئے چلتے ہی رہتے ہیں پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھتے ہیں اور اِسی طرح جس کام میں لگ جائیں تو اُس کے انجام سے بے پرواہ ہو کر اُسے تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں یعنی یہ کہ اَب جیسے ہماری یہ خصلت بن گئی ہے کہ جب ہم اپنے پہ آجائیں تو کوئی ہمیں ہمارے اچھے یا بُرے راستے سے بھٹکا نہیں سکتا ہے، اور جب کچھ نہ کرنے پہ آئیں توبھی دنیا کے لاکھ جتن کرنے اور سمجھانے اور بُجھانے کے باوجود بھی ایک انچ بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں مگر افسوس ہے کہ اِس کے باوجود بھی ہماری یہ کوشش رہتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کی ریل (جو پہاڑ جیسی ہے) اُسے لکڑی کی پٹری پر چلائیں اوراِس پریہ بھی کہ ہم ہر ضابطے اورقانون اور قاعدے کو بالائے طاق رکھ کراپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے دعوے بھی کریں۔

آج شائد یہی وجہ ہے کہ میرے مُلک میں طاقت اور مزاج کا توازن بھی ہماری خصلت کے باعث ہمیشہ سے ہی غیرمستحکم رہاہے اور ہماری طبیعتوں میں بھی ٹھیراو¿پیدانہیںہوسکاہے او ر اَب اُوپر سے نیچے تک یہ شکوہ وردِ زبان ہے کہ ہم دنیاکے ہر میدان میں ناکام رہے ہیں ، اَب ایسے میں ذراسوچیں کہ جب ہماری یہ حالت ہو تو پھرہمارے معاشرے میں کوئی بھی نظام بھلاکیسے پنپ سکتاہے…؟ اورایسے میں سارے نظام کا لامحالہ ڈی ریل ہونالازمی بھی ٹھیرسکتاہے اِس حوالے سے میرایہ شعر حاضرِ خدمت ہے کہ :۔
لکڑی کی ہے پٹری اور لوہے کی ہے ریل
ہوسکتی ہے یک دن یہ ریل بھی ڈی ریل

آج یہ سب ہی جانتے ہیں کہ کس طرح پچھلے دوماہ سے حکومت اوراُن کی جانب سے بھی جو حکومت کے ساتھ دائیں، بائیں، آگے، پیچھے، اُوپر اور نیچے الغرض کے کہیں سے بھی چمٹے ہوئے ہیں اور اِن سب کے علاوہ کچھ ایسے بھی حکومتی ہم خیال کہلانے والے افراد اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے طبقات اور چھوٹے اور بڑے لوگ ہیں جنہوں نے اسلام آبا د کے ریڈزون کے دھرنوں سے متعلق زور اور شعور سے یہ کہنا شروع کردیاکہ کسی خفیہ ہاتھ

یا کسی بیرونی قوت …..؟؟کے اشارے پر اسلام آباد میں دھرنادینے والے اچھی بھلی جمہوری حکومت کو ڈیل ریل کرناچاہتے ہیں اور اُن جمہور دُشمن اور مُلک دُشمن طاقتوں کے عزائم کو تقویت بخشناچاہتے ہیں جو کبھی بھی مُلک میں جمہوریت کو پنپتا نہیںدیکھ سکتے ہیں، آج اِسی لئے جمہوریت سے خائف قوتوں نے عمران اور قادری کا سہارالیااور اِنہیں اُکسا اور بھڑکاکر اسلام آباد تک لے آئے….اور تیس اور اکتیس اگست کو اسلام آباد میںجو ہوا…؟کیاگیا…؟ یا کروایاگیااِسے جواز بناکر نوازشریف کی جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوسکے اور یوںپونے دوسال کی نوازشریف کی جمہوری حکومت کو ڈیل ریل کردیاجائے ..اور اِس کا انجر پنچرکھول کر اِسے کباڑخرانے میں پھینک دیاجائے… پاکستانیوں کو ایسے بہت سے الفاظ اور جملے پڑھنے ، سُننے اور لکھنے کو ملے، اور اِس دوران ایسی بہت سی باتیں بھی کی گئیں اور کی جاتی رہیں کہ آج بوٹوں کی آوازیں آجائیں گیں اور جمہوریت کا دھران تختہ ہوجائے گا…؟مگر کچھ بھی نہ ہوا اور لگتاہے کہ شائد اگلے دِنوں میں بھی کوئی نتیجہ نہ نکل سکے۔

مگر آج تک اُس حقیقت کوکوئی نہیں پاسکاہے کہ عمران اور قادری کے ساٹھ دِنوں سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے دھرنوںکے پسِ پردہ کون سی قوتیں اور کون سے عزائم والے ہاتھ موجود تھے …؟موجود ہیں اور دھرنے کے مقاصدحاصل ہونے تک موجودرہیں گے …؟بہرحال…!آج عمران و قادری کے دھرنوں کو ایک معمہ قرار دینے والے عنقریب خود کسی معمہ میں ڈھلنے والے ہیںکیونکہ ابھی تجزیہ نگاروں اور تبصرہ نگاروں کے نزدیک ظاہر وباطن عناصرکے انکار کے باوجود بھی دھرنوں کی پُراِسراریت برقرارہے اور اَب بھی زمینوں، پہاڑوں، سمندروں کی تہوں اور خلاکے دوش سے بھی خبرتو خبر خبرکے بال کی کھال نکال لینے والے میڈیاکے لوگ پریشان ہیں کہ قادری اور عمران کے جاری رکھنے والے دھرنوں کے پیچھے کون سی طاقت ہے…؟

Zulfiqar Ali Bhutto

Zulfiqar Ali Bhutto

تو یہاں میں بس صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عمران اور قادری کے پیچھے وہ عوام ہے جس کا 68 سالوں سے استحصال کیاگیاہے، آج عوام کو عمران وقادری کی شکل میں دوایسے مسیحا ملے چکے ہیں جن پر عوام کو قائداعظم محمدعلی جناحؒ، علامہ اقبال ؒ اور شہید ذوالفقار علی بھٹواور بے نظیر بھٹو شہید کی طرح اعتبار ہے کہ یہ عوام کے دُکھ دردکا مداواکریں گے اور مُلک اور عوام کو مسائل سے نکال کر اِس کی اُس طرح آبیاری کریں گے جس طرح مندرجہ بالاشخصیات کرتی رہی ہیں۔

اگرچہ آج یہ ساری باتیں اپنی جگہہ بڑی حدتک درست بھی ہوسکتی ہیں، اور آج بھی ہمارے یہاں سب کچھ( دنیاکے دیگرترقی یافتہ ممالک اور مہذب اقوام کی طرح )ٹھیک ہوسکتاہے اَب بھی مجھے یہ یقین ہے کہ ہمارا کچھ نہیں بگڑاہے مگرآج بس ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران، سیاستدان اور اشرافیہ کاوہ طبقہ جس نے ہمیشہ اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصداور مفادات کے خاطر عوام کے حقوق کو غضب کیا اورقومی دولت پر اللے تللے کیا اِن لوگوں کو یہ بات ہر حال میںسوچنی ہوگی اور اپنی اصلاح کرنی ہوگی کہ اِن سے انگنت غلطیاں سرزدہوئیں ہیں اور اِنہوںنے جمہوریت کی آڑلے کر ہمیشہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالاہے آج جب اِن کی اِسی غیراِنسانی، غیراِخلاقی اور غیر سیاسی حرکتوں اور رویوں کے خلاف عمران اور قادری برسوں سے مسائل میں پسی عوا م کے ہمراہ نجات دہندہ بن کرنکلے کھڑے ہوئے ہیں تو اِن مفاد پرست حکمرانوں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کے وجودپر لرزہ طاری ہوگیا ہے اور آج اِن کے دل اور دماغ پر یہ خوف سوار ہوگیا ہے

کہیں اِن کا دھاندلی سے حاصل کردہ وہ مینڈیٹ جس پر موجودہ جمہوریت کا مینارکھڑاہے اِسے عمران اور قادری گرانہ دیں اور اِن کی حکومت ختم نہ کردیں اِس لئے اِن مفادات پرستوں نے اپنے لبوں پہ اپنی جمہوریت (آج جِسے عوام نام نہاد جمہوریت کہتے ہیں ) ڈی ریل ہونے سے بچانے کے نعرے سجارکھے ہیں جب کہ آج حقیقت یہ ہے کہ اِن مفاد پرستوں(حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اشرافیہ )کی نام نہادجمہوریت جس لکڑی کی پٹری پرہے اَب وہ کسی بھی وقت خودبخود ڈی ریل ہوسکتی ہے۔(ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
فون نمبر: 03312233463
azamazimazam@gmail.com