غذا میں ملاوٹ، بیماریوں کی ایک بڑی وجہ

Blending

Blending

تحریر : حفصہ ریاض

صحت مند غذا ہماری زندگی کی بنیادی ضرورت ہے جو ہمیں غذائی اجزاء کے ساتھ ساتھ جسم کی تندرستی اور توانائی برقرار رکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ جیسا کہ ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ صحت ہی دولت ہے۔ فوڈ سائنس کی طلبہ ہونے کی حیثیت سے میں جانتی ہوں کہ اشیاء خورد نوش میں ذرہ بھر بھی ملاوٹ ہمارے لیے کس قدر مضر ثابت ہو سکتی ہے۔

ملاوٹ ایک غیر انسانی عمل ہے اور افسوس تب ہوتا ہے جب آپ اپنے مسلمان بھائیوں کو ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے دیکھتے ہیں۔ بحیثیت امت محمدیہ ، انسانیت نوازی اور حقوق العباد کی پاسداری ہمارا اہم ترین فریضہ ہے اور ہماری پاک صاف شریعت ہمیں ان ناجائز کاموں سے منع کرتی ہے جس میں بندوں کے حقوق کا زیاں ہو۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کا مسئلہ ایک خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے جس میں دودھ، کھانا پکانے کا تیل/گھی، مصالحہ جات، چائے، دودھ اور بیکری کی مصنوعات، مشروبات کی اشیاء میں ملاوٹ رہائشیوں کی صحت کے لیے مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ موجودہ دور میں، دودھ میں پانی کے ساتھ ساتھ ایسی کیمیائی اشیاء کی ملاوٹ شروع کر دی ہے جو بذات خود زہر ہیں۔ چائے کی پتی میں زنگ آلود لوہے کے زرات ملانا اور مصنوعی رنگ کا استعمال تو عام ہو چکا ہے۔ چاولوں میں لکڑی کا برادہ اور رنگ ملانا، گائے کے گوشت کی شکل میں گدھے کا گوشت یا مردہ جانوروں کا گوشت فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ پینے کا پانی میں بھی ملاوٹ ہو رہی ہے۔

اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں ٹائیفائیڈ, ہیپاٹائٹس سی وائرس, ہیپاٹائٹس بی وائرس، تپ دق اور ایڈذ کا بہت نام ہے۔ کھانا پکانے والے تیل میں ارجیمون کے تیل کو ملایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وبائی مرض، گرد مرض اور دل کی گرفتاری ہوتی ہے۔ چائے میں مصنوعی رنگ کا استعمال کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔ ٹی سی پی بہت سے تیلوں میں استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے لوگ فالج کا شکار ہو رہے ہیں۔ آئل کا بار بار استعمال انتہائی خطرناک ہے جو کینسر کا سبب بنتا ہے۔

ہمارے ملک میں ملاوٹ شدہ خوراک کی اہم وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ آج دنیا جہاں ایک طرف ترقی کے سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے، روز نت نئے انکشافات ہورہے ہیں، وہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دونوں ہاتھوں ناجائز دولت سمیٹنے کے لئے ہر وہ قدم اٹھانے کے لئے کوشاں ہے، جس کی منزل ”حصول زر“ کے علاوہ کچھ نہیں، لمبی کمائی کی لالچ اور انسان کی لاپروائی نے اسے لالچی بنادیا ہے، جس سے وہ تمام حدیں پار کررہے ہیں، دولت کی ہوس اور شارٹ کرٹ راستے سے بجلد امیر ترین بننے کی تمنا نے، آدمی سے آدمیت کا لبادہ چھین لیا ہے، انسان پیغامِ انسانیت سے نا آشنا ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے ملاوٹ اور نقلی اشیاء تیار کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ کم پونجی میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کریں، انسان کی صحت خراب ہوتو ہو، شریعت وسماج سے بھی کچھ سروکار نہیں۔ یہ ساری چیزیں اور موجودہ حالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ دولت کی ناجائز ہوس نے انسان کو انسانی جذبے اور حقیقی اقدار سے عاری کردیا ہے

ترقی پذیر ممالک میں میں طاقتور اداروں کے سخت قوانین کی وجہ سے خوراک میں ملاوٹ کا نشان تک نہیں ہے جب کہ ہمارے ملک پاکستان میں دفعہ 272 کے زیر اثر ملاوٹ کرنے والے کے لئے زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ قید بامشقت یا تین ہزار روپے جرمانہ ہے۔ نہایت دکھ کی بات ہے کہ ہمارے قانون ساز اداروں نے ایسے ہلاکت انگیز جرم کے خلاف کوئی سخت قانون بنانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

Law

Law

خدا اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو جس گناہ کی سزا مل رہی ہے وہ گناہ ترک صلاة، ترک صوم اور ترک تہجد کا گناہ نہیں ہے؛ بلکہ حقوق اللہ میں دھوکہ دھڑی کا گناہ ہے. اس بابت سماج کی فکر اور سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ وقت مثبت فیصلہ لینے کا متقاضی ہے۔ پورے سماج کو اس کے لئے کوشاں ہونا چاہیے، انقلابی پیش رفت کے لئے ذاتی مفادات کو ختم کرکے آپسی تعاون کے فروغ میں حصہ لینا ضروری ہوگیا ہے۔ اچھے ہیں وہ لوگ جو دیہات میں رہتے ہیں اور خالص قدرتی غذا استعمال کرتے ہیں۔

تحریر : حفصہ ریاض