معاشی انقلاب کیسے ممکن ہے

Economic

Economic

تحریر : سید عارف سعید بخاری

معاشی انقلاب کیلئے انقلابی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے ،اور اس کے لئے انسانی سوچ و فکرکا غلامانہ ذہنیت سے آزاد ہونا بھی لازم ہے ،دنیا میں چین ،جاپان، کوریا،ترکی اورایران سمیت جتنے ممالک نے بھی ترقی کی ،وہاں کے حکمرانوں نے قومی سوچ اور حب الوطنی کو اپنے زندگی کا مرکز ومحور بنایا ۔اور اس عزم کے ساتھ اپنی جدوجہد کو آگے بڑھایا کہ ”زندہ قومیں” اپنے دست و بازو سے اپنا مقام پیدا کرتی ہیں ،غیروں کی غلامی چاہئے ذہنی ہویا معاشی ،ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی میں بنیادی رکاوٹ ہی ہمارے حکمرانوں کی سوچ و فکر ہے کہ ہر آنے والے حکمران نے عالمی قوتوں کی کاسیہ لیسی کو اپنا مرکز ومحور بنا یا ۔آئی ایم ایف ، دولت مشترکہ سمیت سپر طاقتوں ، اسلامی و دوست ممالک سے قرض اور امداد کی آس لگائی اور ہر ملنے والی امداد اور قرض کو اپنی کامیابی سے تعبیر کیا ۔ہمارے حکمرانوں کا حال کچھ یوں رہا کہ

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

چین اور جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ ان ممالک میں کئی کئی بار سیلاب اور زلزلے آئے ،ان ممالک کی اینٹ سے اینٹ بچ گئی لیکن کسی مرحلے پر بھی ان حکمرانوں نے دنیا کے آگے اپنی مظلومیت کا ڈرامہ رچا کر امداد نہیں مانگی ۔۔ان عظیم محب وطن حکمرانوں نے اپنے عوام کو اپنے ساتھ لیا اور اپنے ملک یعنی اپنے گھر کو دوبارہ ”اپنی مدد آپ” کے تحت تعمیر کیا ۔ان میں سے بیشتر وہ خوددار قومیں ہیں کہ جو غیر مذہب ہونے کے باوجود بھیک مانگنا ،کشکول تھامنا معیوب سمجھتی ہیں جبکہ بحیثیت مسلمان ہمیں ان باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ اسلام نے دوسروں کے آگے دست سوال سے منع فرمایا ہے ۔ہمارے قابل حکمرانوں کے طفیل آج پاکستان میں ہر پیدا ہونے والا بچہ تقریباً2لاکھ روپے کامقروض ہے ۔جبکہ ہمارے وڈیروں، سرمایہ داروں اور لٹیروں کے پاس اس قدر ناجائز دولت موجود ہے کہ جس کی مدد سے ہم پاکستان کو بیرونی معاشی غلامی سے نجات دلا سکتے ہیں ۔لیکن ہمارا اصول یہ ہے کہ ہم کیوں ملک و ملت کے لئے قربانی دیں ۔۔؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ساری دولت ہم نے اسی ملک سے لوٹی ہے ، ہمارے ان سرمایہ داروں کے پاس یہ دولت کسی امریکی یا یہودی امداد کے ذریعے نہیں آئی ، ہمارے لیڈروں نے جیسے تیسے اسی ملک کو لوٹا ہے ۔اور مزید لوٹنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ۔کوئی ان لٹیروں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا کیونکہ احتساب کا اختیاررکھنے والے خود بھی لٹیرے ہی ہیں ، کسی نے کم لوٹا تو کسی نے زیادہ ۔۔لیکن ہم نے لوٹ مار کے سوا اس ملک کی کوئی خدمت نہیں کی ۔ہمارا یہ مزاج بن چکا ہے کہ ہم دوسروں کو چور چور ،ڈاکو ڈاکو ۔۔۔کہتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے ۔آج کروڑ پتی ہویا لاکھ پتی ۔۔سب نے پاکستان سے ہی لوٹا ہے ، جائز یا ناجائز کی بحث الگ ہے ۔

موجودہ حکومت نے بھی اپنے پیش رو سیاستدانوں کی پالیسیوں کو ہی پروان چڑھایا ہے ۔اور ساری قوم کو ایک ایسی معاشی دلدل میں دھکیل دیا ہے کہ ان کے بعد آنے والے بھی قوم کو اس دلدل سے نہیں نکال پائیں گے ۔المیہ یہ ہے کہ ہم ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے سابقہ حکمرانوں کو سب مسائل کا مجرم گرادنتے ہیں ۔جبکہ خود بہتری کی کوئی تدبیر نہیں سوچتے ۔حکومت میں ہمیشہ ہی ایسے لوگ شامل کئے جاتے ہیں کہ جو یہود و نصاریٰ کے آلہ کار بن کر ملک کی تباہی کا سامان کرتے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت سنبھالنے والا ماضی کی روشنی میں اپنا کچھ الگ وژن لے کر آگے بڑھے۔اور اس کا یہ انقلابی وژن اس قدر اصلاحات کا مظہر ہو کہ ساری قوم اپنے لیڈر کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر ملک کی ترقی و خوشحالی میں شریک ہو جائے ۔مگر ایسا نہیں ہے ۔ملک میں فوج ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ 3 بڑی قوتیں ہیں جو اس ملک کی تقدیر کو بنانے سنوارنے کی دعویدار ہیں ۔اور یہی 3 قوتیں ہی ملک پر باری باری حکومت کرتی رہی ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تینوں قوتوں سے وابستہ افراد کی حیثیت ایک خاندان کی سی ہیں ۔۔ان سبھی کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اس لئے حکومت کسی کی بھی آ جائے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔طویل عرصے بعدعمران خان کی صورت میں تحریک انصاف کو اکھاڑے میں اتارا گیا لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ اُن کا ”وژن ”ہی دھندلانے لگا ہے ،خوشامدی ٹولے نے انہیں اس قدر بے بس کر دیا ہے کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ۔بحیثیت وزیراعظم اپنے خطابات میں بھی وہ اپنے عہدے اور رتبے کی پاسداری نہیں کر پا رہے اور دنیا بھر میں ”جگ ہنسائی ” کا سبب بن رہے ہیں ۔ادھر ہر تبدیلی ان تینوں قوتوں کیلئے خوشی و مسرت کا پیغام لے کر آتی ہے جبکہ عوام ہمیشہ سے ہی ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

ان کا کوئی پرسان حال نہیں ۔گذشتہ کئی سال سے ہمارے یہ سیاستدان اور حکمران اپنی اولادوں کو اس ملک کا حکمران بنانے کیلئے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لا رہے ہیں ، میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز ،آصف زرداری اپنے صاحبزادے بلاول زرداری ، شہباز شریف اپنے بیٹے حمزہ شہبازجبکہ چوہدری پرویز الہی ٰ اپنے بیٹے مونس الہیٰ کے مستقبل کو تابناک بنانے کیلئے کوشاں ہیں ۔اسی ڈگر پر دیگر لیڈران بھی اپنے اپنے بچوں کو قوم پر مسلط کرکے ”موروثی سیاست ”کو پروان چڑھا رہے ہیں ۔انہیں ملک وملت سے زیادہ اپنی اولادوں کا مستقبل عزیز ہے ۔ہماری یہی سوچ ملک و ملت کی تباہی کی بنیاد ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ و فکر کو ملک و ملت کے مفاد میں تبدیل کریں ۔اور دوسروں کی بیساکھیوں کاسہارا لئے بغیر اپنے وسائل کو بروئے کا ر لا کر ملک کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے پر توجہ دیں ۔تاکہ ہماری آئندہ نسلیں کم از کم ایک خود دار قوم کی طرح زندگی بسر کر سکیں۔

Syed Arif Saeed Bukhari

Syed Arif Saeed Bukhari

تحریر : سید عارف سعید بخاری
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com